تشدد سے تشدد ختم نہیں ہوگا

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

یہ بڑی تشویش کی بات ہے کہ ملک بھر میں ایک بار پھر امن و امان کے مسائل مخدوش ہوتے جا رہے ہیں اور ملک کے مختلف حصوں میں دہشت گرد اور شر پسند عناصر نے اپنی خونریز کارروائیاں تیز کر دی ہیں۔

حالیہ عرصے میں تواتر کے ساتھ ایسے واقعات پیش آئے ہیں، جن میں سیکورٹی فورسز، قانون نافذ کرنے والے اداروں، فوجی مراکز اور چیک پوسٹوں کو نشانہ بنایا گیا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دہشت گردوں اور ان کے منصوبہ سازوں نے پاکستان کیخلاف اپنے مذموم عزائم اور منصوبوں میں تیزی پیدا کردی ہے اور اس نازک موقع پر جب پاکستان شدید معاشی بحران کا سامنا کر رہا ہے، بھرپور اور منظم طریقے سے پاکستان پر وار کرنے کی ٹھان لی ہے۔

گزشتہ ماہ پاک انسٹی ٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ ملک میں حالیہ عرصے میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافے کا رجحان دیکھا جا رہا ہے۔ یہ صورتحال ایسے وقت میں درپیش ہے، جب خیال کیا جا رہا تھا کہ پاکستان عسکریت پسندی کےخلاف جنگ میں کامیابی کے قریب ہے اور اس نے مختلف موثر اور مربوط آپریشنز کے ذریعے عسکریت پسندی پر قابو پالیا ہے، تاہم گزشتہ کچھ عرصے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ صورتحال ایک بار پھر پلٹ گئی ہے اور عسکریت پسندی پر غلبہ پانے کا تاثر نہ صرف ختم ہو رہا ہے بلکہ دہشت گردی اب پہلے سے بڑے پیمانے پر رونما ہو رہی ہے اور عسکریت پسندوں کے حملوں میں اس قدر تیزی آ رہی ہے کہ ملک کے مختلف حصوں میں متواتر خونریز کارروائیوں میں بطور خاص سیکورٹی اداروں اور املاک کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

اگرچہ یہ بھی واضح ہے کہ دہشت گردی کے ان واقعات سے پاکستان کی سیکورٹی فورسز کا اس پیمانے پر نقصان نہیں ہوا اور نہ ہوسکتا ہے کہ خدا نخواستہ دہشت گرد عناصر ان کارروائیوں کے ذریعے پاکستان کے دفاعی اداروں کو سرنڈر کرنے پر مجبور کرکے اپنے مقاصد کی تکمیل کریں، مگر اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ دہشت گردی کے ان واقعات سے مجموعی طور پر ملک و قوم کا نقصان ہو رہا ہے۔

قیمتی جانوں کے ضیاع کے ساتھ ساتھ دہشت گردی اور بے امنی کے نتیجے میں ملک میں عدم استحکام اور سلامتی کے مسائل اور اثرات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ عدم تحفظ کا احساس بڑھنے کے باعث معاشی سرگرمیاں بری طرح متاثر ہو رہی ہیں، کیونکہ معیشت اور امن کا آپس میں گہرا تعلق ہے، بے امنی اور عدم استحکام کی فضا میں معیشت نہیں پھل پھول سکتی، چنانچہ دہشت گردی اور بے امنی میں اضافہ بجا طور پر پوری قوم کیلئے فکر مندی اور تشویش کی بات ہے، یہ صرف سیکورٹی فورسز اور دفاعی اداروں کا مسئلہ نہیں۔

ملک میں دہشت گردی کی دو طرح کی لہریں اپنا کام کر رہی ہیں، ایک کا مرکز مجموعی طور پر قبائلی اضلاع اور صوبہ خیبر پختوانخوا ہے جبکہ دوسری لہر کا فوکس ایریا صوبہ بلوچستان ہے، تاہم دونوں ہی طرح کی دہشت گردی اور بے امنی میں ایک بات مشترک ہے اور وہ یہ کہ دونوں قسم کی دہشت گردی کا نشانہ بنیادی طور پر سیکورٹی فورسز ہیں۔

اس میں دو رائے نہیں کہ فورسز کو نشانہ بنانے کا اصل مقصد دراصل ملک و قوم کو یرغمال بنانا اور ملک کو نقصان پہنچانا ہے، سیکورٹی فورسز دہشت گردوں اور شر پسندوں کے اس گھناونے مقصد کی راہ میں رکاوٹ ہیں، اس لیے انہوں نے فورسز کو نشانے پر رکھا ہوا ہے۔
دہشت گردی اور بے امنی کے ذریعے دشمن اپنے عزائم اور مقاصد میں کبھی کامیاب نہیں ہوگا، یہ بات ہمارے دفاعی اداروں نے اپنی مضبوط دفاعی صلاحیت اور دہشت گردوں کا ہر حملہ کامیابی سے پسپا کرکے بخوبی ثابت کر دی ہے اور یہ بات دہشت گردوں اور ان کے منصوبہ سازوں کو بھی اب اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے۔

انہیں جان لینا چاہیے کہ ان کا مقابلہ تنہا سیکورٹی اداروں سے نہیں ہے، پوری قوم ان کے مقابلے میں کھڑی ہے، جسے وہ کبھی شکست نہیں دے سکتے۔ دہشت گردی اور بے امنی کے خاتمے کیلئے ریاستی پالیسیوں میں حسب ضرورت تبدیلی، ترجیحات کی از سر نو ترتیب اور طاقت کے استعمال کو ہی مسائل کا واحد حل سمجھنے کے بیانیے میں بدلاو کی ضرورت پر تو ہمیشہ ہی بات ہوتی رہتی ہے اور اس میں دوسری رائے نہیں کہ مسائل کے حل کیلئے مذاکرات، افہام و تفہیم اور پالیسیوں میں تبدیلی ناگزیر ہے، تاہم تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی، طاقت اور تشدد کا استعمال کرنے والے دوسرے فریق کو بھی اب یہ حقیقت سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ اس راستے سے اپنے مقاصد کبھی حاصل نہیں کرسکیں گے۔

طاقت اور تشدد سے مسائل کبھی حل نہیں ہوتے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ مسائل موجود ہیں، ریاست کو بھی گوناگوں مسائل کا سامنا ہے اور تشدد کی راہ اختیار کرنے والے بھی اپنے عمل کیلئے مسائل کو جواز ٹھہراتے ہیں، مسائل جب ہر دو طرف موجود ہیں اور تین دہائیوں سے زائد عرصے سے جاری تشدد اور طاقت کے استعمال سے وہ حل ہوئے اور نہ ہی حل ہونے کا نام لے رہے ہیں تو عقل و دانش کا تقاضا یہی ہے کہ ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں انانیت کو ایک طرف رکھ کر اپنی اپنی پوزیشن سے ایک ایک قدم پیچھاہٹا جائے اور تشدد اور طاقت کی بجائے امن، بات چیت اور افہام و تفہیم کو راستہ دیا جائے۔

Related Posts