خود کردہ را علاج نیست

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گزشتہ دنوں رات گئے عدالت عظمیٰ نے انتخابی نشان کے کیس میں فیصلہ دیتے ہوئے تحریک انصاف کو انتخابی کھیل سے ہی باہر کر دیا۔

ملکی سیاست میں عدالتوں اور انتظامیہ کی جانب سے اس طرح کے فیصلے غیر معمولی بات نہیں، ماضی میں بھی مختلف بنیادوں پر بہت سی سیاسی جماعتوں کے ساتھ ایسے ہی حالات و واقعات پیش آتے رہے ہیں اور ان کے مجموعی طور پر انتخابات کے نتائج اور سیاسی ماحول پر مختلف نوعیت کے اثرات بھی سامنے آتے رہے ہیں۔

اس میں دو رائے نہیں کہ پاکستان تحریک انصاف ملک کی سب سے مقبول جماعت ہے اور اس کی مقبولیت کسی بھی دوسری سیاسی جماعت کے مقابلے میں انتہائی متحرک اور فعال بھی ہے اور سیاسی میدان میں ہمہ وقت نمایاں بھی دکھائی دیتی ہے۔ دوسری سیاسی جماعتیں بھی عوام میں جڑیں رکھتی ہیں، مگر دیگر جماعتوں اور تحریک انصاف میں واضح فرق یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے حامی جوش، جذبات، فعالیت اور تحرک میں دوسری جماعتوں کے مقابلے میں بہت آگے ہیں اور ان کی پارٹی سے یہی جذباتی وابستگی اور مبالغہ آمیز تعلق آج کل ”اے روشنی طبع تو بر من بلا شدی“ (اے میری طبعیت کی تیزی تو مجھی کیلئے مصیبت بن گئی) کے مصداق اس جماعت کے حشر نشر کا سبب بن کر اسے اس انجام تک لے آیا کہ آج وہ انتخابی میدان سے ہی باہر کر دی گئی ہے۔

اس میں شک نہیں کہ قانونی، عدالتی اور انتظامی طاقت اور اختیار کو بروئے کار لا کر عوام میں جڑیں رکھنے والی کسی سیاسی جماعت کو سیاسی منظر نامے سے عارضی طور پر ہٹایا تو جاسکتا ہے مگر اس کی مقبولیت اور وجود کو یکسر ختم نہیں کیا جاسکتا۔

قطع نظر اس بحث سے کہ عدالت عظمیٰ کا فیصلہ قانونی اور ٹیکنکل بنیادوں پر کس قدر درست ہے، اس ایک فیصلے سے تحریک انصاف کو اطمینان رکھنا چاہیے کہ اس کا وجود ابھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوا۔ ملکی سیاسی تاریخ میں عوامی مقبولیت رکھنے والی کئی سیاسی جماعتوں کو اس سے بھی زیادہ سخت حالات سے سابقہ پڑا ہے اور بہت سی سیاسی جماعتوں کو باقاعدہ کالعدم بھی قرار دیا گیا، مگر ان جماعتوں نے اپنی پالیسیاں بدلیں اور مثبت ذہن کے ساتھ حالات کا مقابلہ کیا تو وہ سروائیو کر گئیں اور آج بھی انتخابی میدان میں موجود ہیں۔

جہاں تک عدالت عظمیٰ کے فیصلے کی بات ہے، قانونی اور ٹیکنکل نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو اس فیصلے کو جذباتی بنیاد پر غلط قرار دینا درست نہیں ہے۔ اس فیصلے کی بنیاد انٹرا پارٹی الیکشن کے حوالے سے عائد ہونے والی اصولی ذمے داریوں سے مسلسل پہلوتہی کا طرز عمل ہے۔ انٹرا پارٹی الیکشن کا کیس راتوں رات نہیں بنایا گیا، یہ کیس اس وقت بھی الیکشن کمیشن کی ٹیبل پر موجود تھا، جب تحریک انصاف اقتدار میں تھی۔ الیکشن کمیشن اس وقت بھی برابر تحریک انصاف کو آگاہ کرتا رہا اور متنبہ کرتا رہا کہ قواعد و ضوابط کے مطابق انٹرا پارٹی انتخابات کروائے جائیں، مگر ایسا لگتا ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت نے کمیشن کی ہدایات اور احکامات کو سنجیدہ نہیں لیا اور معاملہ برابر نظر انداز کیا جاتا رہا، جو بڑھتے بڑھتے اسے آج اس انجام سے دوچار کر گیا۔
بدقسمتی سے پی ٹی آئی قیادت نے ہر معاملے کو سیاست کی نذر کرکے مخالف اور موافق کی واضح لکیر کھینچنے کو پالیسی بنا رکھا ہے، جس کے زیر اثر سیاست، سماج، مذہب سے لیکر اداروں تک ہر جگہ جو بھی پارٹی کا موافق اور حامی ہے وہ ٹھیک ہوتا ہے، ورنہ وہ ملک دشمن اور ”چوروں کا ساتھی“ قرار پاتا ہے، یہی سوچ قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کے وقت اپنائی گئی اور اس کے تحت اداروں میں اپنے مبینہ ہمنواوں کے برتے پر حالات بزور طاقت پلٹنے کا راستہ چنا گیا، جو اس جماعت کو بالآخر 9 مئی کے حادثے سے دوچار کر گیا، اس مقصد کیلئے پارٹی کارکنوں کی ”ہم کوئی غلام ہیں، ریڈ لائن، آزادی“ جیسے پر فریب نعروں کے ذریعے مسلسل کئی ماہ تک برین واشنگ کی گئی اور سیاست میں نفرت اور شدت کا وہ زہر بھرا گیا، جس کا نتیجہ وسیع پیمانے پر انتشار کی صورت میں سامنے آیا اور اب بھی اس جماعت کی جانب سے دی گئی ”ریڈ لائن“ والی مخصوص سوچ کے تحت نوجوانوں میں اداروں اور ریاست کے تئیں شدید بد ظنی پائی جاتی ہے۔
عدالت عظمیٰ کی جانب سے انتخابی نشان واپس لینے کے اقدام کے بعد پی ٹی آئی قیادت نے اپیل میں جانے کا فیصلہ کیا ہے اور ساتھ ہی یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ اس کی پارٹی کے الیکشن کے معاملے کو بہانہ بنایا گیا، جبکہ دیگر جماعتوں سے یہ سوال نہیں پوچھا گیا۔

فیصلے کیخلاف اپیل میں جانا پی ٹی آئی کا حق ہے، تاہم اس کا یہ کہنا کہ دوسری جماعتوں میں بھی یہ نہیں ہوا، لمحہ فکریہ ہے۔ پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ وہ ہر لحاظ سے دیگر جماعتوں سے مختلف ہے، وہ موروثیت اور بد عنوانی کیخلاف سب سے زیادہ نعرے لگاتی ہے، شفافیت اور میرٹ کی بات کرتی ہے مگر جسٹس وجیہہ، اکبر ایس بابر سے لیکر فوزیہ قصوری، بشریٰ بی بی، فرح گوگی، بی آر ٹی اور بزدار کے معاملات تک اس نے اپنے عمل سے یہی ثابت کیا ہے کہ وہ دوسری جماعتوں سے کسی طرح بھی مختلف نہیں ہے، میرٹ، شفاف انتخابات، دیانتداری اور موروثیت کی باتیں محض دل کا بہلاوا ہیں۔

یہ صورتحال پی ٹی آئی کی قیادت کی دانشمندی کا ایک اور مگر کڑا امتحان ہیں، اس کے پاس آبرو مندانہ واپسی کے اب بھی موقع ہے اگر وہ اپنی سوچ، برتاو اور طرز عمل میں مثبت تبدیلی لے آئے۔ اس موقع پر ملک کی بڑی یوتھ پاور کے جذبات کو مثبت رخ پر ڈال کر ملک و قوم کیلئے مفید بنانا اس کی قومی ذمے داری بھی ہے۔

Related Posts