وکلاء کے پرتشدد واقعات کا تاریخی پس منظر: مسئلے کا حل کیا ہے؟

مقبول خبریں

کالمز

zia
برسوں ایران میں رہنے والی اسرائیلی جاسوس خاتون کی کہانی
Philippines, Pakistan, National Day, Dr. Emmanuel Fernandez, bilateral ties, diplomacy, climate change, development, peace, trade, education, cultural exchange, sustainable future, regional cooperation, Mabuhay, Filipino community, Islamabad celebration, soft power, South-South partnerships, innovation, resilience, post-colonial nations, mutual respect, global south
مشترکہ جدوجہد اور روشن مستقبل کی ایک خوبصورت تقریب
Munir-Ahmed-OPED-768x768-1-750x750
روسی کے قومی دن کی خوبصورت تقریب

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

وکلاء کے پرتشدد واقعات کا تاریخی پس منظر: مسئلے کا حل کیا ہے؟
وکلاء کے پرتشدد واقعات کا تاریخی پس منظر: مسئلے کا حل کیا ہے؟

ماہرینِ قانون یعنی وکیل حضرات کے پر تشدد واقعات ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتے جا رہے ہیں جنہیں کنٹرول کرنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔

قانون نافذ کرنے والے ادارے، عدلیہ اور ریاست کے دیگر ادارے وکلاء کے سامنے بے بس ہوچکے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ وکلاء کے پر تشدد واقعات کا تاریخی پس منظر اور مسئلے کا حل کیا ہے؟ 

پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی پر وکلاء کا حملہ:

 وکلا نے گزشتہ روزلاہور کے پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی پر دھاوا بول دیا ۔آپریشن تھیٹر میں گھس کر توڑ پھوڑ کی گئی۔ طبی امداد نہ ملنے پر 6 مریض جاں بحق ہوگئے جبکہ وکلا کی غنڈہ گردی اور تشدد سے کئی افراد زخمی بھی ہوئے۔

وکلاء نے پولیس کی گاڑی کو آگ لگا دی ۔ صوبائی وزیراطلاعات فیاض الحسن چوہان کووکلا نے گھیر کر تشدد کا نشانہ بنایا۔ وہ انہیں مار ہی ڈالتے، لیکن فیاض الحسن چوہان کی قسمت اچھی تھی کہ وہ بچ نکلے۔

بعد ازاں وزیراعظم پاکستان عمران خان نے وکلاء کی ہنگامہ آرائی اور توڑ پھوڑ کا نوٹس لیتے ہوئے رپورٹ طلب کرلی۔ وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے صوبائی وزیر قانون راجہ بشارت کی سربراہی میں واقعہ کی تحقیقات کے لیے کمیٹی تشکیل دیدی۔

وزیر قانون پنجاب راجہ بشارت نے کہا کہ پی آئی سی (کارڈیالوجی انسٹیٹیوٹ لاہور) پر وکیلوں کے حملے کا واقعہ انتہائی افسوسناک ہے ،واقعے میں ملوث عناصر کے خلاف سخت قانونی کارروائی کریں گے۔

مذمتی بیانات:

وزیر اعظم کی معاونِ خصوصی برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ ہنگامہ آرائی اور توڑ پھوڑ کے واقعے کی شدید مذمت کرتے ہیں جس کے دوران صوبائی وزیر فیاض الحسن چوہان کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

وزیر اعظم عمران خان کی سابقہ اہلیہ ریحام خان نے گزشتہ روز پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے واقعے میں صوبائی وزیر فیاض الحسن پر تشدد کی مذمت کرتے ہوئے تحریکِ انصاف کی حکومت پر کڑی تنقید کی۔

 معاونِ خصوصی  برائے سمندر پار پاکستانیز سیّد ذوالفقار بخاری نے کہا کہ لاہور میں ہونے والے واقعے پر بے حد افسوس ہے، قانون سے کوئی برتر نہیں جبکہ مشتعل ہجوم کا رویہ مجرمانہ تھا۔

دوسری جانب قائدِ حزبِ اختلاف قومی اسمبلی شہباز شریف نے کارڈیالوجی انسٹیٹیوٹ حملے کی شدید مذمت  اور پر تشدد واقعے کی شفاف تحقیقات کا مطالبہ کردیا۔کارڈیالوجی انسٹیٹیوٹ حملے کے حوالے سے اپنے بیان میں مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے کہا کہ ہنگامہ آرائی کا یہ واقعہ قابلِ مذمت ہے جس کی اعلیٰ سطحی و غیر جانبدارانہ تحقیقات ضروری ہیں۔

وکلاء کے پرتشدد واقعات کو وکلاء گردی کیوں کہا جاتا ہے؟

سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں وکلاء تحریک چلائی گئی جس کے بعد وکلاء برادری اور ماہرینِ قانون نے گروپس بنا کر دھڑے بندی شروع کردی۔ وکلاء چاہتے ہیں کہ عدالتیں ان کی مرضی کے خلاف کچھ نہ کریں۔ وہ چاہتے ہیں فیصلہ کسی صورت ان کے مؤکل کے خلاف نہ آئے۔

اگر عدالت کا کوئی معزز جج وکلاء کی مرضی کے خلاف فیصلے کرتا تو اس کے خلاف عدم برداشت کا مظاہرہ کیاجاتا۔ وکلاء کے خلاف آپ قانونی کارروائی شروع کریں تو وکلاء تنظیمیں اور بار ایسوسی ایشن کے غیظ و غضب کا شکار ہونا پڑے گا۔ یہ وہ رویہ ہے جس کے تحت وکلاء نے ایک الگ قسم کی دہشت گردی شروع کردی جسے آج ہم وکلاء گردی کہتے ہیں۔

سابق صدر پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں وکلاء تحریک کی حقیقت

سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے 9 مارچ 2007ء کو چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری سے استعفیٰ طلب کر لیا جو پورے ملک کی عدلیہ کے سربراہ تھے، سابق چیف جسٹس وقت کے صدر پرویز مشرف کے آگے ڈٹ گئے۔

Image result for Pervez Musharraf

 ملک پر طویل عرصے سے حکومت کرنے والے سابق آرمی چیف پرویز مشرف کوئی معمولی صدر نہیں تھے۔ انہوں نے فوج کی وردی پہن رکھی تھی، اس کے باوجود جب سابق چیف جسٹس نے استعفے سے انکار کردیا تو وکلاء برادری ان کے ساتھ کھڑی ہوگئی۔

Image result for iftikhar muhammad chaudhry

اپوزیشن میں موجود سیاسی رہنما جو پرویز مشرف کو باوردی حکمران اور آمر کہتے تھے، انہوں نے میڈیا اور دیگر جمہوریت پسندوں کو تحریک کا حصہ بنا دیا۔ جس کے بعد یہ تحریک زور پکڑ گئی۔ بالآخر 15 مارچ 2009ء کو عدلیہ غلامی سے آزاد ہوئی، لیکن عدلیہ کے ساتھ ساتھ وکلاء نے دیکھ لیا کہ اگر ہم احتجاج پر نکلیں تو کیا کرسکتے ہیں۔انہوں نے وکلاء گردی شروع کردی۔ 

وکلاء گردی: ماضی کے چند واقعات

یہ کوئی زیادہ پرانی بات نہیں بلکہ رواں سال 21 نومبر کو یہ خبر سننے کو ملی کہ فیصل آباد کی  ضلع کچہری کے باہر  پیدل سڑک کراس کرتے ہوئے ایک وکیل کو گاڑی روک کر راستہ نہ دینے پر وکلاء طیش میں آ گئے۔ ایک پک اَپ ڈرائیور پر تشدد کیا گیا۔

متعدد وکلاء نے ڈرائیور کو پکڑ کر اس کے ساتھ اندھا دھند مار پیٹ کی۔ اسے تشدد کا نشانہ بنانے والے قانون کے رکھوالوں نے قریب کھڑی پولیس کا ذرا بھی خوف نہ کیا بلکہ پولیس ہی ان سے خوف کھاتی رہی۔

Image result for lawyers attack on pic lahore

تماشائی کا کردار ادا کرنے والی پولیس کے سامنے مظلوم ڈرائیور نے وکلاء کی منت سماجت کی، کہتا رہا کہ مجھے چھوڑ دو، لیکن وکلاء اسے مسلسل مارپیٹ کا نشانہ بناتے رہے۔

پنجاب کے شہر ٹوبہ ٹیک سنگھ میں رواں ماہ (دسمبر 2019ء) میں وکلاء نے قانون کی دھجیاں اڑا دیں۔ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال کے ملازمین کا وکلاء سے جھگڑا ہوا جس میں پولیس کو بھی وکلاء کا ساتھ دینا پڑا۔

قانون کے رکھوالوں سے خوفزدہ پولیس نے ہسپتال کے ملازمین کو ہتھکڑیاں لگا کر مجرموں کی طرح وکلاء کے سامنے پیش کیا جس کے بعد وکلاء نے انہیں بار بار معافی مانگتے رہنے پر مجبور کردیا۔ ملازمین وکلاء سے معافیاں مانگتے رہے اور وکلاء ان کا مذاق اڑاتے رہے۔

رواں ماہ کے دوران وکلاء گردی کا ایک اور واقعہ پیش آیا۔ کراچی کی سٹی کورٹ میں وکلاء مقدمے کی سماعت کے لیے آئے ہوئے ایک شہری پر ٹوٹ پڑے۔ محمد آصف نامی شہری نے کہا میں لینڈ مافیا کے خلاف انصاف کے حصول کے لیے عدالت آیاہوں۔

محمد آصف نے کہا کہ میرے کیس کے مخالف وکلاء نے مجھ پر تشدد کیا۔ گزشتہ 8 ماہ سے عدالت کے چکر کاٹ رہا ہوں، میرے مقدمے کا چالان بھی پیش نہ کیا جاسکا۔ مجھے دھمکیاں دی جارہی ہیں۔

دو سال قبل شاہ زیب قتل کیس کے ملزمان کو ضمانت پر رہائی مل گئی لیکن ظافر نامی ایک شخص کے قتل میں گرفتار ملزمان کو وکلاء نے احاطۂ عدالت سے فرار کرا دیا۔ کراچی کے علاقے دو دریا پر کار ریسنگ کے دوران فائرنگ ہوئی جس میں ظافر نامی شخص جاں بحق ہوگیا۔

ظافر قتل کیس کے اہم ملزم جنید شاہ کی عبوری ضمانت مسترد کرتے ہوئے عدالت نے اسے گرفتار کرنے کا حکم دیا۔ جب پولیس اسے گرفتار کرنے لگی تو وکلاء درمیان میں آ گئے۔ انہوں نے انصاف کی رکھوالی کی بجائے پولیس پر دھاوا بول دیا۔ پولیس اہلکاروں پر تشدد کرنے والوں نے قتل کے ملزم کو فرار ہونے میں کھلم کھلا مدد کی۔

نو سال قبل  پولیس نے 200 وکلاء کے خلاف انسدادِ دہشتگردی کے تحت مقدمہ درج کر لیا۔ مقدمہ پولیس اہلکاروں کو 2 اکتوبر 2010ء کو زخمی کرنے اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کے الزام میں درج کیا جس میں پولیس کو خود مدعی بن کر سامنے آنا پڑا۔

ملکِ خداداد پاکستان کی تاریخ میں وکلاء گردی کی اصطلاح اُس وقت سامنے آئی جب وکلاء تحریک کے بعد  معزز عدالتوں کے جج صاحبان کو وکلاء نے تشدد کا نشانہ بنایا۔ کہیں ججز پر جوتے برسائے گئے تو کہیں ان کے ساتھ مارپیٹ کی گئی۔ پولیس افسران، عدالتی عملے اور سائلین کے ساتھ ساتھ مدعی مقدمہ کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ 

مسئلے کا حل کیا ہے؟

عدالتوں میں وکلاء اپنے مؤکلوں کو انصاف دلانے میں نمایاں نظر آتے ہیں۔و کلاء برادری کی طرف سے انصاف کی جنگ کی بجائے مارپیٹ اور تشدد کا مظاہرہ قابلِ مذمت ہے۔ وکلاء احتجاج کے باعث ماضی میں عدلیہ کو تقویت حاصل ہوئی، جس میں سول سوسائٹی کا بھی حصہ رہا لیکن وکلاء کی طرف سے گواہوں، مدعی اور عوام الناس پر بڑھتے ہوئے تشدد کی کسی بھی طرح حوصلہ افزائی نہیں کی جاسکتی۔

Supreme Court of Pakistan

وکلاء کو عدلیہ کا احترام کرنا چاہئے، لوگ اگر وکلاء پر اعتماد کرنا چھوڑ دیں تو عدلیہ کا پورا نظام تہ و بالا ہوسکتا ہے جس کے باعث وکلاء بھی بے روزگاری کا سامنا کرسکتے ہیں، لہٰذا عدالتوں میں آنے والے عوام کے ساتھ ساتھ انفرادی و اجتماعی طور پر بھی وکلاء برادری کو تشدد سے دور رہنا ہوگا۔ وکلاء برادری کو چاہئے کہ اس مقدس پیشے سے وابستہ ایسے تمام افراد کا بائیکاٹ کریں جو اسے بدنام کرتے ہیں۔

پاکستان بار کونسل کو چاہئے کہ متشدد وکلاء کے لائسنس کینسل کرنے اور دیگر تادیبی اقدامات کا آغاز کرے اور ملک کے ہر شعبے کی طرح وکالت کے شعبے میں بھی احتساب کا اطلاق عمل میں لایا جائے۔ بار کونسل میں ایسے قوانین بنائے جائیں کہ کس قسم کے متشدد واقعے میں کتنے عرصے کے لیے لائسنس کینسل کیاجانا چاہئے۔ وکلاء اگر مارپیٹ، قتل و غارت اور غنڈہ گردی جیسے جرائم میں ملوث پائے جائیں تو ان کی کیا سزا ہونی چاہئے؟ قانون سازی پر مؤثر عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔

اگر وکلاء گردی کو لگام نہ دی گئی تو ملک بھر میں لاقانونیت کا بد ترین راج ہوگا۔ عوام عدل و انصاف کے لیے وکلاء کے پاس آنے کی بجائے ہتھیار اٹھا لیں گے۔ بے گناہوں پر ظلم کرنے والوں کے خلاف آواز اٹھانے کا جب کوئی فائدہ نہیں ہوگا تو قتل و غارت شروع ہوجائے گی۔ 

Related Posts