گلوبل پولیو ایریڈیکیشن انیشیٹو (جی پی ای آئی) کی جانب سے حالیہ الرٹ پولیو کے خاتمے کی کوششوں میں پاکستان کو درپیش پیچیدہ چیلنجوں پر روشنی ڈالتا ہے۔
یہ واضح ہے کہ وائلڈ پولیو وائرس ٹائپ ون کی منتقلی کو روکنے کے لیے قابل ستائش کوششوں کے باوجود پاکستان کثیر جہتی مسائل سے دوچار ہے جو پولیو کے خاتمے کے مشن کی راہ میں مشکلات حائل کرنے کا سبب ہے۔ معاشی عدم استحکام اور سیاسی غیر یقینی صورتحال وہ نمایاں رکاوٹیں ہیں، جو دور دراز کی آبادیوں تک پولیو ویکسی نیشن مہمات کی عدم رسائی کا سبب ہیں۔ اس کے ساتھ سیکورٹی تناظر میں بڑھتا ہوا عدم تحفظ ان چیلنجوں کو مزید پیچیدہ بنا رہا ہے۔
گزشتہ دنوں پاکستان کے افغان سرحد سے ملحقہ علاقے پشین میں پولیو کا ایک کیس سامنے آیا، تحقیق سے پتا چلا کہ اس کی جڑیں افغانستان میں ہیں، جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سرحد پار سے پولیو وائرس کی “دراندازی” بھی ایک واضح خطرے کی صورت میں موجود ہے۔ یہ صورتحال پاکستان اور افغانستان کے درمیان ہم آہنگی سے کام کرنے کی فوری ضرورت کو اجاگر کرتی ہے۔ اس سلسلے میں دونوں ملکوں کے درمیان مربوط کوششیں بہت اہم ہیں۔ ڈبلیو پی وی کی رپورٹ میں بجا طور پر دونوں ممالک کے درمیان باہمی تعاون پر مبنی اقدامات کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔
سیاسی بے یقینی یا عدم تحفظ کی وجہ سے بعض علاقوں میں صحت کی مہمات میں خلل پڑنے سے بچوں میں وائرس کا خطرہ بڑھتا جارہا ہے۔ سیاسی بے یقینی اور بے امنی باہم جڑے ہوئے ایسے چیلنجز ہیں، جن سے نمٹنے کے لیے جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے۔
GPEI کا جاری کردہ الرٹ ان پیچیدگیوں سے نمٹنے کی فوری ضرورت کی یاد دہانی ہے۔ یہ الرٹ واضح کرتا ہے کہ ہمیں پولیو کے خاتمے کے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے صحت کے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط بنانے کے ساتھ سیاسی بے یقینی ختم کرنے اور امن و امان کی صورتحال بہتر بنانے کی طرف بھی توجہ دینی چاہئے۔
اس سلسلے میں ایک بار پھر اس امر کی یاددہانی بھی ضروری ہے کہ ہمارے معاشرے میں سازشی نظریات کے زیر اثر پولیو ویکسی نیشن کی مخالفت کی ذہنیت اب بھی دور دراز علاقوں میں بطور خاص کارگر ہے۔ اس سے نمٹنے کیلئے منصوبہ بندی کے ساتھ سرحد پار افغان حکومت کے ساتھ مل کر مربوط کوششیں بروئے کار لانا بھی پولیو کے خاتمے کیلئے مطلوبہ ضروری اقدامات ہیں۔ ان تمام اقدامات کو بروئے کار لائے بغیر پولیو کا خاتمہ خواب ہی رہے گا۔