ووٹ عزت لیتا نہیں، دیتا ہے۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف آج سے کچھ سال قبل 2019 میں طبیعت کی ناسازی کا کہہ کر لندن روانہ ہوئے اور رواں برس 2023 کے دوران وطن واپس لوٹے، جو 5سال کا عرصہ بنتا ہے۔
جمہوری معاشروں میں ووٹ کی مدد سے ایک عام انسان یا عام سیاستدان ملک کا وزیر اعظم یا صدر بن جاتا ہے، اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ووٹ وہ نہیں جس کو عزت دی جائے، بلکہ اس کے ذریعے سے دوسروں کو عزت و احترام دیاجاتا ہے۔
تاہم جب نوازشریف کو ملک چھوڑ کر جانا پڑا، یا بقول پی ٹی آئی وہ خود اپنی مرضی سے گئے اور اپنے علاج کا بہانہ بنا کر خود ساختہ جلاوطنی کاٹی تو اس دوران ووٹ کو عزت دو کے نعرے لگائے گئے اور آج بھی ن لیگ ووٹ کی عزت چاہتی ہے۔
تاہم مسئلہ یہ آن پڑا ہے کہ ووٹ کو نہ تو عزت دی جارہی ہے اور نہ ہی سیاست دانوں کو یہ اعتماد رہا ہے کہ ووٹ کے ذریعے عوام انہیں مزید عزت دینا پسند کریں گے، اس لیے انتخابات میں کامیابی کی بجائے الیکشن سے قبل ہی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی باتیں کی گئیں۔
گزشتہ روز اپنے ایک بیان میں پی پی پی رہنما خورشید شاہ نے کہا کہ میاں صاحب نے 2014 میں ووٹ کو عزت دو کا سلوگن دیا، لیکن کیا آپ یہ عزت دے رہے ہیں؟ آپ کے لوگ خود کو اسٹیبلشمنٹ کے لوگ کہتے ہیں۔
خورشید شاہ نے کہا کہ ووٹ کو عزت دینے کا نہیں، پارٹی کا مسئلہ ہے۔ ہم نظریاتی سیاست کرتے ہیں اور ہمارے لیڈر نے جو وعدے کیے، وہ پورے بھی کیے۔ کوئی اور جماعت بتائے کہ ان کے منشور پر کتنا علمدرآمد کیا گیا؟
دلچسپ طور پر طویل عرصے سے صوبہ سندھ میں وزارتِ اعلیٰ سے لے کر ہر اہم عہدے پر براجمان پیپلز پارٹی کی نظر آئندہ عام انتخابات میں وزارتِ عظمیٰ پر ہے جس کے عہدے کا امیدوار بلاول بھٹو زرداری کو بنایا گیا ہے۔
جیسا کہ تمام موروثی سیاسی جماعتوں کا وطیرہ ہوا کرتا ہے کہ اگر باپ وزیر اعظم تھا تو اس کی بیٹی یا بیٹا ہی وزارتِ عظمیٰ کا حقدار ہوسکتا ہے۔ پی پی پی کی بات کی جائے تو کیا اس پارٹی میں ووٹ یا سینیارٹی کو عزت دی جارہی ہے یا پھر موروثیت کو؟
اگر ووٹ کو عزت دی جاتی تو پیپلز پارٹی کے دور میں جتنی بار انتخابات ہوئے، ان کے دوران دھاندلی کی شکایات سامنے نہ آتیں، خیر وہ تو عام انتخابات کے دوران بھی آیا کرتی ہیں لیکن کیا انٹرا پارٹی الیکشن کرائے جاتے ہیں؟
کیا ن لیگ یا پیپلز پارٹی سمیت کوئی بھی سیاسی جماعت موروثیت کی بجائے میرٹ پر نئے سیاسی رہنما آگے لا سکتی ہے جو حقیقی طور پر ملک چلانے کی اہلیت اور قابلیت رکھتے ہوں؟ جبکہ پیپلز پارٹی میں وزارتِ عظمیٰ سمیت دیگر شعبوں پر خدمات انجام دینے والے موجود ہیں۔
مسلم لیگ (ن) میں بھی ایک سے زائد سابق وزرائے اعظم موجود ہیں جن میں راجہ پرویز اشرف اور شاہد خاقان عباسی جیسے نام شامل ہیں جبکہ راجہ پرویز اشرف اسپیکر قومی اسمبلی کے طور پر بھی خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ پاکستان قائم ہوئے 76سال گزر گئے۔ اتنے طویل عرصے کے بعد بھی ہم ووٹ کو عزت کیوں نہ دے سکے؟ اور جو لوگ ووٹ کو عزت دینے کی بات کرتے ہیں، ان کے اسٹیبلشمنٹ سے روابط کے بیانات کیوں سامنے آتے ہیں؟ کیا سیاست دانوں نے عوامی حمایت اور ووٹ پر بھروسہ کرنا چھوڑ دیا؟
جب کسی ملک کے سیاستدان ووٹ کو عزت نہیں دیتے، عوام کی رائے کی قدر نہیں کرتے اور اسے جمہوری روایات کے عین مطابق طاقتور نہیں سمجھتے، انہیں قوم کے مسائل کو اہمیت دینے کی روش اپناتے دیکھنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ عوامی ووٹوں کو صرف زبانی کلامی نہیں بلکہ ذاتی طور پر اہمیت دی جائے اور ووٹوں کی طاقت پر ہی منتخب ہو کر قومی اسمبلی میں قدم رکھا جائے تاکہ ایسی حکومت قائم کی جاسکے جو عوامی امنگوں کے عین مطابق ہو۔