ہر سال نکبہ کے دن فلسطینی سڑکوں پر باہر نکلتے ہیں، اس د ن ان کے ہاتھوں میں ان کے سابقہ گھروں کی چابیاں ہوتی ہیں جہاں سے انہیں 75 سال قبل نکال دیا گیا تھا، پھر وہ وہاں کبھی بھی لوٹ کر نہ جاسکے۔ فلسطینیوں کے نزدیک اس دن کو قیامت کبریٰ بھی کہا جاتا ہے۔
اس دن فلسطینیوں کے ہاتھوں میں چابیاں کیوں ہوتی ہیں؟
اس دن فلسطینی اپنے گھروں کی چابیاں لے کر اس لئے نکلتے ہیں، کیونکہ انھیں واپسی کی امید اور خواہش ہے۔ ان چابیوں سے ان کے گھروں کے یادیں وابستہ ہیں، انہیں اس سے سروکار نہیں کہ ان کے گھر تباہ ہوچکے ہیں، کیونکہ ان کے پاس اپنے گھروں کو واپس جانے کا حق ہے جس کا بین الاقوامی قانون نے ان سے وعدہ کیا تھا۔
14 مئی 1948 کو اسرائیل نے برٹش مینڈیٹری فلسطین سے آزادی کا اعلان کیا جس کے دوسرے دن سے 15 ماہ تک جاری رہنے والی عرب اسرائیل جنگ شروع ہوئی اور اس کے دوران ساڑھے سات لاکھ سے زیادہ فلسطینی اپنے گھروں سے محروم ہوگئے یا انہیں جبراً ان کے گھروں سے بے دخل کردیا گیا۔ اسی جبری بے دخلی کو نکبہ کہتے ہیں، فلسطینیوں کی جانب سے اس دن کو 15مئی کو منایا جاتا ہے۔
رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ جب سنہ 1947 کے آخر میں (اقوام متحدہ نے فلسطین کی تقسیم کے اپنے منصوبے کا اعلان کرنے کے بعد، جس نے اس علاقے کو دو ریاستوں میں تقسیم کیا، ایک یہودی اور ایک عرب لڑائی شروع ہوئی اور جب تک کہ ریاست کا 14 مئی 1948 کو اعلان نہ ہوا اس وقت تک تقریباً 300,000 فلسطینیوں کو صہیونی ملیشیا نے ان کے گھروں سے بے دخل کر دیا تھا۔
فلسطین، ون ہنڈرڈ ایئرز آف کولونولیلزم اینڈ رسسٹینس’ کے مصنف خالدی کے مطابق جنگ کے آغاز کے بعد ’اسرائیلی فوج نے فلسطینیوں کی زیادہ منظم بے دخلی شروع کی اور مزید 450,000 لوگوں کو اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔
یہ اعداد و شمار بس ایک تخمینہ ہیں، لیکن اقوام متحدہ جیسے بین الاقوامی اداروں کے زیر انتظام اعداد و شمار کے مطابق یہ خیال کیا جاتا ہے کہ 80 فیصد فلسطینیوں کو بے دخلی کا سامنا کرنا پڑا۔ لبنا شومالی وضاحت کرتی ہیں کہ واپسی کی کوشش کرنے والوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا، قید کیا گیا یا جلاوطنی پر مجبور کیا گیا کیونکہ ان پر ‘درانداز’ کا لیبل لگا دیا گیا تھا۔
آج بھی فلسطین میں جو صورتحال ہے اس سے یہی ظاہر ہورہا ہے کہ 1948کی تاریخ دہرائی جاسکتی ہے، آج بھی فلسطینیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں، بے دریغ بمباری کا سلسلہ جاری ہے، عمارتوں کو ملبے کا ڈھیر بنایا جارہا ہے، قتل و غارت گری کا سلسلہ جاری ہے، انہیں ان کے گھروں سے بے دخل کیا جارہا ہے، جبکہ عالمی طاقتیں خاموش تماشائی کا کردار ادا کررہی ہیں۔