گزشتہ دن سامنے آنے والی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستانی کرنسی نے ستمبر کے مہینے میں بہترین کار کردگی کے باعث دنیا بھر کی کرنسیوں کو پیچھے چھوڑا اور بہترین کرنسی کا تمغہ اپنے سینے پر سجایا۔ اس پر خاصی بحث چل رہی ہے کہ اچانک یہ کیا ماجرا ہوگیا، تاہم رپورٹ کے مطابق یہ سب ملک بھر میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے ڈالر کی غیر قانونی تجارت، اسمگلنگ اور سٹا بازی کے خلاف کریک ڈاون، موثر انتظامی اقدامات اور اسٹیٹ بینک کی اصلاحات کا کرشمہ تھا، بہر حال جو بھی وجہ ہے، اس نے معیشت کے پژ مردہ چہرے پر وقتی سہی، کسی حد تک تازگی کا غازہ مَل دیا ہے۔
جاننے والے جانتے ہیں کہ عصر حاضر کی معاش و اقتصاد، نیز عالمی اور مقامی سیاست میں ڈالر کی کارفرمائی اور اس کا اثر و نفوذ مسلم حقیقت ہے، ایک غالب ملک کی کرنسی کی حیثیت سے کرنسیوں کے اسکور بورڈ پر ڈالر ہی وہ معیار قرار پا چکا ہے جس پر دوسری تمام کرنسیوں کی قدر و قیمت کو پرکھا جاتا اور ان کی تاب و طاقت کا اندازہ لگایا اور مقرر کیا جاتا ہے۔
ڈالر کی اس عالمی اجارہ داری کے نتیجے میں ہر ملک کو اپنی کرنسی کی قدر ڈالر کی قیمت کے مطابق یا اس کے قریب قریب کرنے کی جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں دوسری کرنسی کی قدر کم ہونے کی صورت میں بالخصوص پاکستان جیسے ترقی پذیر اور کمزور معیشت رکھنے والے ملکوں کیلئے عالمی تجارت میں بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
پاکستان کی معیشت طویل عرصے سے انتہائی زبوں حالی، ابتری اور بحرانوں کی شکار ہے، جس کی بنا پر پاکستان آئی ایم ایف، ورلڈ بینک سمیت قرض فراہم کرنے والے کئی دیگر عالمی اداروں اور دوست ملکوں کا مقروض ہے۔ قرضوں کا یہ تمام تر ”کاروبار“ بھی عالمی تجارت کی طرح ڈالر پر منحصر ہے، اس کے علاوہ پاکستان کو اندرونی طور پر بھی بہت سی مالیاتی ادائیاں ڈالر میں کرنا پڑتی ہیں، جس کے باعث ملکی کرنسی کی قیمت میں عدم استحکام اور ڈالر کی قدر میں معمولی اضافے سے بھی واجب الادا رقم مع سود ایک ہی جھٹکے میں کہیں سے کہیں جا پہنچتی ہے اور یہ صورتحال آنا فانا پوری معیشت میں آگ لگا دیتی ہے۔ ڈالر کی قیمت ذرا سی بھی بڑھے تو درآمدی بل میں بے پناہ اضافہ ہوجاتا ہے اور برآمدات کا دائرہ مزید سکڑنے لگتا ہے۔
گزشتہ کچھ عرصے کے دوران ڈالر اور روپیہ کی قدر کے میدان میں بلی چوہے کے کھیل نے بڑی خوفناک اور سنگین شکل اختیار کرلی تھی، ڈالر نے روپیہ کو بری طرح خستہ اور نڈھال کرکے رکھ دیا تھا اور روپیہ کے اندر ڈالر کے مقابلے اور مزاحمت کی سکت ہی ختم ہوگئی تھی اور اس نے گویا خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تھا۔
ڈالر کی بے لگامی اور روپیہ کی بد ترین کارکردگی اگرچہ لمبے عرصے سے جاری ہے، تاہم عمران خان حکومت کی برطرفی اور نئی حکومت آنے کے بعد ڈالر کی بے لگامی حد سے بڑھ گئی اور روپیہ بہت تیزی سے مسلسل ڈھلان میں گرتا چلا گیا۔
پی ڈی ایم پلس کی اتحادی حکومت کے دوران ڈالر کی قیمت طوفانی رفتار کے ساتھ بڑھتی رہی، حالانکہ پی ٹی آئی حکومت کی برطرفی کی بنیادی وجہ یہی رہی تھی کہ وہ معیشت کو قابو کرنے میں ناکام ثابت ہوگئی تھی، تاہم اس کی جگہ اتحادی حکومت نے گو معیشت کے بحران کو کسی حد تک قابو کرنے کی کوشش کی مگر ڈالر کو کنٹرول کرنے کے باب میں یہ حکومت مکمل بے بس اور ایک طرح سے اس حوالے سے اپنی انتظامی ذمے داریوں سے غافل اور لا تعلق ہی نظر آئی۔
اس حکومت کے دوران مسلسل یہ رپورٹس آتی رہیں کہ پاکستان سے ڈالر افغانستان اسمگل کیے جا رہے ہیں، مگر حکومت کی طرف سے ان اطلاعات پر کوئی توجہ نہیں دی گئی اور سارا زور مزید قرض حاصل کرکے زر مبادلہ کے ذخائر میں مصنوعی اضافہ کرنے پر ہی دیا جاتا رہا، جو آئی ایم ایف سے ڈیل کیلئے ضروری تقاضا تھا، مگر ڈالر کو قابو اور معیشت کو اندر سے ٹھیک کرنے کیلئے اقدامات نہ ہونے کے باعث یہ پالیسی ملک اور قوم کیلئے انتہائی تباہ کن ثابت ہوئی اور معیشت بالکل ہی زمین بوس ہوتی چلی گئی۔
اس پالیسی کے نتیجے میں گو عارضی اور رسمی طور پر ملک کو ڈیفالٹ سے بچالیا گیا، مگر عوام کا دیوالیہ نکلتا چلا گیا اور عوام کے دیوالیہ ہونے کا سنگین سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
یہ رپورٹ خوش آئند اور بہت ہی حوصلہ افزا ہے کہ پاکستان کی کرنسی نے ستمبر کے مہینے میں دنیا کی بہترین کرنسی کا اعزاز حاصل کیا ہے، تاہم اس رپورٹ اور ملکی کرنسی کی قدر میں استحکام کے اس سفر میں کئی سبق پوشیدہ ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ملکی کرنسی کی سنگین حد تک بے قدری شدید ترین بے انتظامی کا نتیجہ تھی۔
صاف ظاہر ہے کہ ڈالر کی چور بازاری، اسمگلنگ اور ذخیرہ اندوزی کا بازار گرم تھا اور انتظامی حکام شریک جرم بن کر کوئی بھی کارروائی کرنے سے گریزاں تھے، تو پوری معیشت شدید آزمائش سے دوچار ہوگئی تھی، آج انتظام سخت کر دیا گیا اور بالخصوص آرمی چیف نے اس سلسلے میں ڈنڈا اٹھایا تو انتظامیہ کے وہ سارے چور دروازے بند ہونا شروع ہوگئے، جہاں سے ڈالر کو فرار کروایا جا رہا تھا، نتیجے میں اب روپیہ مستحکم ہو رہا ہے، جس کا فائدہ بھی روپیہ کا استحکام یونہی برقرار رہنے کی صورت میں جلد یا بدیر سامنے آئے گا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ انتظامیہ کے جو لوگ اپنے فرض سے غافل رہ کر ملک و قوم کیلئے سنگین نقصان کا ذریعہ بنے، انہیں کیفر کردار تک پہنچایاجائے تاکہ آئندہ کسی کو بھی حرام خوری کیلئے ملکی معیشت کے ساتھ کھیلنے کی جرات نہ ہو۔
نیز یہ بھی ضروری ہے کہ معاشی انتظام کو سخت اور نظم و ضبط کا پابند رکھنے کیلئے جاری اقدامات کا تسلسل برقرار رکھا جائے۔ ایسا نہ ہو کہ کچھ عرصے بعد اقدامات ڈھیلے اور کمزور پڑ جائیں اور ایک بار پھر معاملات قابو سے باہر ہوجائیں۔