عالمی جیو پولیٹیکل تناظر اورآغا خان

مقبول خبریں

کالمز

zia
امریکا کا یومِ قیامت طیارہ حرکت میں آگیا۔ دنیا پر خوف طاری
Firestorm in the Middle East: Global Stakes on Exploding Frontlines
مشرق وسطیٰ میں آگ و خون کا کھیل: عالمی امن کیلئے خطرہ
zia-2
آٹا 5560 روپے کا ایک کلو!

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

اگر عالمی منظر نامے پر نظر ڈالی جائے تو ایک جانب پاک چین دوستی اور خطے میں روس اور دیگر وسطی ایشیائی ممالک کے مابین باہمی تعاون  ہے،  دوسری جانب امریکا، اس کے اتحادی ممالک اور بھارت کے مابین بڑھتی ہوئی دوستی کی پینگیں ہیں جو خطے کے امن  میں مسلسل  تلاطم پیدا کرتی نظر آرہی ہیں۔

بھارت سے تقریباً  12ہزار کلومیٹر دوری پر موجودامریکا کی نظر میں چین کی خطے میں اُبھرتی ہوئی قوت اور خطے سے باہر بھی چینی اثر و رسوخ  ہمیشہ سے کھٹکتا آیا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ  امریکا اور اس کے اتحادیوں کے عزائم مزید واضح ہوچکے ہیں کیونکہ وہ چین کی پیش قدمی روکنے کیلئے اپنے مفادات کا ایجنڈا ہر حال میں فعال طور پر آگے بڑھا رہے ہیں۔

دراصل اس چومکھی جنگ کے اصل کھلاڑی امریکا اور چین ہیں جبکہ امریکا کی روس سے دشمنی بھی عالمی سطح پر کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ایک طرف روس کیلئے امریکا اور نیٹو کی جانب سے ایسے حالات پیدا کردئیے گئے کہ روس کو یوکرین پر حملہ کرنے کے سواکوئی چارہ نظر نہیں آیا کیونکہ روس کئی مرتبہ یہ تنبیہ کرچکا تھا کہ یوکرین  کی نیٹو شمولیت ہماری ریڈ لائن سے کم نہیں  جس سے روس کی قومی سلامتی کو خطرہ ہے جبکہ دوسری جانب امریکا ، نیٹو ممالک اور دیگر اتحادیوں نے یوکرین کی صف بندی کرکے اسے جدید ترین اسلحہ اورہر قسم کی  امداد فراہم کی جو بادی النظر میں بظاہر ان تمام ممالک کے دشمن کے طور پر سامنے آنے والے روس کے مقابلے میں خود یوکرین کیلئے بھی تباہ کن ثابت ہورہی ہے۔

بہت سے تجزیہ کاروں کا یہ خیال ہے کہ اگر روس کو صرف یہ یقین دہانی کرادی جاتی یا اب بھی کرادی جائے کہ یوکرین نیٹو کا ممبر نہیں بنایا جائے گا تاکہ نیٹو ممالک روس کی سرحد پر جدید ترین ہتھیار نصب کرکے اس کی گردن پر نہ بیٹھ جائیں تو  روس اور یوکرین کے درمیان جنگ یا تو چھڑ نہیں سکتی تھی یا جلد ختم ہوسکتی ہے تاہم مغربی ممالک اور امریکا کی پشت پناہی کے باعث یوکرین کی جنگ طول پکڑتی جارہی ہے جس کا خمیازہ یوکرینی عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے، یوکرین کو نقصان پہنچ رہا ہے اور عالمی معیشت بھی متاثر ہورہی ہے۔

دنیا کے بدلتے ہوئے تیور اور ابھرتا ہوا جیو پولیٹیکل منظر نامہ شدید کشیدگی کی طرف بڑھتا ہوا نظر آرہا ہے جس میں چین اور امریکا کا ایک دوسرے سے مقابلہ جسے امریکی قوم کنٹینمنٹ آف چائنا پالیسی (Containment of China Policy)کہتی ہے جو ان کی خارجہ پالیسی کا ایک کلیدی نکتہ ہے اور اسی کے تحت اس وقت پورے خطے کے جیو پولیٹیکل منظر نامے میں جو ایک نیا ابھار آرہا ہے جیسا کہ کواڈ اور اوکاس کے معاہدے ہیں جس میں کہ سمندری راہداریوں پر امریکا چاہتا ہے کہ اس کا اثر رسوخ اور تسلط قائم رہے تاکہ وہ جب چاہے چین کی سمندری رسد گاہوں کو بند کردے، جو چین کا گلا گھونٹنے سے کم نہ ہوگا۔

یہاں قارئین کو بتاتے چلیں کہ کواڈریلیٹرل سکیورٹی ڈائیلاگ (Quadrilateral Security Dialogue)جسے کیو ایس ڈی (QSD)یا مختصراً کواڈ (Quad)کہا جاتا ہے ، امریکا، بھارت، جاپان اور آسٹریلیاکے مابین ایک اسٹرٹیجک معاہدہ ہے ، جو پہلے 2007ء سے 2008ء تک جاری رہنے کے بعد ختم ہوا اور پھر2017ء سے ایک بار پھر فعال کرلیا گیا۔

اسی طرح اوکاس (AUKUS)امریکا، برطانیہ اور آسٹریلیا کے مابین ستمبر 2021ء میں طے پانے والا عالمی معاہدہ ہے جس کا نام تینوں ممالک کے ناموں کے ابتدائی حروف سے مستعار لیا گیا ہے۔ بظاہر اوکاس کا مقصد تینوں ممالک کے مابین سکیورٹی تعاون کو فروغ دینا ہے تاہم اس معاہدے کا سب سے اہم نکتہ انڈو پیسفک کے علاقے میں آسٹریلیا کو برطانیہ اور امریکا کے مشترکہ تعاون سے جوہری ایندھن سے چلنے والی سب میرینز مہیا کرنا ہے  جس سے اوکاس کے پس پردہ خطے میں امریکا،برطانیہ اور آسٹریلیا کے عزائم کا اندازہ کیاجاسکتا ہے جبکہ اس معاہدے میں دیگر دفاعی و سکیورٹی پہلوؤں بشمول مصنوعی ذہانت، سائبر ڈیفنس اور مزید جدید ترین ٹیکنالوجیز کے ذریعے باہمی دفاعی تعاون کا عہد بھی کیا گیا ہے۔

چین کے بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ، معاشی طاقت اور دفاعی اسٹرٹیجک اثر و رسوخ سے امریکا آج جتنا خائف ہے، ماضی میں پہلے کبھی نہ تھا کیونکہ چین نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انتہائی ہوشیاری کے ساتھ جو ترقی کی ہے، امریکی ماہرین اور تجزیہ کاروں نے بہت پہلے اس کا ادراک کر لیا تھا ، حتیٰ کہ  انگریزی کے مقابلے میں چینی زبان سیکھنے کی باتیں بھی ہوئیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ مغربی دنیا چین کو امریکا کی جگہ ایک نئی سپر پاور کے طورپر عرصہ دراز سے دیکھتی چلی آرہی ہے، جسے روکنا امریکا کیلئے ”مارو یا مر جاؤ “جیسا مسئلہ بن گیا کیونکہ اگر چین اسی رفتار سے آگے بڑھتا رہا تو خطے میں امریکا اور ا س کے اتحادی ممالک کی اجارہ داری کو ختم ہونے میں زیادہ دیر لگتی نظر نہیں آتی۔

اقوامِ متحدہ   عالمی سطح پر شہرت یافتہ اور  اپنی ایک الگ اورمنفرد پہچان  رکھنے والی  شخصیت کا تقرر عمل میں لاسکتا ہے جس  کی تعلیم ہی انسانی ہمدردی (Compassion) اور صبر و تحمل کے علاوہ انسانی وقار (Human Dignity) ہو جبکہ ماضی میں ایسی ہی نابغۂ روزگار شخصیات کے مذہبی یا قومی تشخص اور اثر و رسوخ کے باعث طاقتور جنگجو اور سپہ سالار ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوئے،  اسی طرح بھارت کو بھی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیاجاسکتا ہے۔

اگر اس منظر نامے کو ذہن میں رکھتے ہوئے دوسری جانب دیکھا جائے تو چینی بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا جو تصور ہے جس میں دنیا کے 150 کے لگ بھگ ممالک نے کسی نہ کسی طریقے سے شمولیت اختیار کر لی ہے اور جس کا ایک بہت اہم جزو اور فلیگ شپ منصوبہ سی پیک (CPEC)ہے جو کہ پاکستانی سرزمین سے گزرتا ہے اور چین نہ صرف اپنے ملک کے اسٹرٹیجک مفادات بلکہ وسطی ایشیا تک اس سے بھرپور استفادہ حاصل کرے گا، یہ چین کیلئے ریڑھ کی ہڈی سے کم نہیں کیونکہ اگر سی پیک مکمل ہوجاتا ہے اور یہاں پاک چین انرجی کاریڈور (Pak China Energy Corridor) کے نام سے انرجی پائپ لائن بچھائی جاتی ہے جو پیٹرولیم مصنوعات کو چین تک پہنچانے میں گوادر سے لے کر اور خنجراب ٹاپ سے ہوتے ہوئے چین کے اندر پہنچے گی تو یہ چین کیلئے مستقبل قریب میں سب سے محفوظ رسد گاہ بن جائے گی جس کے خواب کو امریکا اور اس کے اتحادی ممالک شرمندۂ تعبیر نہیں ہونے دینا چاہتے۔ اس رسد گاہ کی تکمیل پر امریکا کا بحر ہند اور بحر اوقیانوس میں تسلط خودبخود کم ہوجائے گا جبکہ اگلے پانچ سال کے اندر انفرا اسٹرکچر ڈویلپمنٹ اور سی پیک مکمل کرنے کی تیاری ہوچکی ہے اور ظاہر ہے کہ امریکا ان پانچ سالوں میں چاہے گا کہ وہ اس پراجیکٹ کی تکمیل میں دامے، درمے، سخنے یا کسی بھی قسم کی مداخلت کے ذریعے بھارت اور دیگر ممالک یا دیگر خفیہ ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے رخنہ اندازی کرے اورروکے ۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں اس وقت ففتھ جنریشن وار کا سلسلہ جاری کردیا گیا ہے۔

ففتھ جنریشن وار کا تصور خطے کیلئے نیا نہیں۔عمومی طور پر ففتھ جنریشن وار سے مراد ایک ایسی جنگ لی جاتی ہے جس میں ہتھیار نہیں اٹھائے جاتے بلکہ مد مقابل یا دشمن کو اپنی پالیسیوں ، حکمت عملی اور متعلقہ ملک کے لوگوں کی ہی شمولیت اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے شکست دی جاتی ہے جس میں بعض اوقات روایتی جنگ، سائبرجنگ اور نفسیاتی آپریشنز اور دنیا کے بڑے بڑے معاشی اور صحافتی اداروں کو استعمال کرتے ہوئے تنازعات کیلئے کثیر جہتی نقطۂ نظر پیدا کر لیا جاتا ہے۔ اس میں جعلی خبروں اور سوشل میڈیا پر معلومات کی ہیرا پھیری کا سہارا بھی لیاجاتا ہے تاکہ ایسے تاثرات تشکیل دئیے جاسکیں جو ہدف بنائے گئے ملک کی فیصلہ سازی کو متاثر کریں۔

ففتھ جنریشن وار کے تحت نفسیاتی آپریشنز کے ذریعے ہدف بنائی گئی آبادیوں اور مخالفین کے مابین الجھن، خوف اور شک کے بیج بود ئیے جاتے ہیں۔ ان نفسیاتی حربوں کا مقصد دشمن کے حوصلے اور ہم آہنگی کو پست اور کمزور کرنا ہوتا ہے جبکہ اس دوران جو ملک کسی دوسرے ملک کو ففتھ جنریشن وار کا نشانہ بناتا ہے، وہ خود اپنے ففتھ وار کا کوئی سراغ نہیں چھوڑتا اور اس تمام تر عمل سے لاتعلق نظر آنے کی حتی الوسع کوشش کرتا ہے جس میں اس نفسیاتی اصول کو اہمیت حاصل ہے کہ انسان ہمیشہ غیر مرئی اور غیبی مخلوقات سے ڈرتا آیا ہے لیکن جب کوئی خوفناک سے خوفناک تر مخلوق اس کے سامنے آکر کھڑی ہوگئی، وہ اپنے اس مسئلے یا مخلوق کو ختم کرنے کا کوئی نہ کوئی طریقہ ضرور ایجاد کرلیتا ہے، اس لیے ففتھ جنریشن وار میں دشمن ہمیشہ مخفی رہناپسند کرتا ہے، جس مقام پر دشمن کھل کر سامنے آجائے، اس کی کم ازکم 50فیصد شکست اسی موقعے پر ہوجاتی ہے، جیسا کہ بظاہر پاکستان کے ساتھ ہورہا ہے۔

ففتھ جنریشن وار کی تمام تر کارروائیاں غیر ریاستی عناصر یا افراد کے ذریعے ہوتی ہیں ۔ دشمن کو براہِ راست کھلے عام لڑنے کی دعوت دینے کی بجائے اس کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھایا اور ان کا استحصال کیاجاتا ہے جبکہ بعض اوقات اس میں سائبر وار کو بھی شامل کر لیا جاتا ہے جس میں ہیکنگ، ڈیٹا کی چوری ،انفرا اسٹرکچر میں خلل ڈالنااور حقیقی تباہی کیے بغیر افراتفری پیدا کرنا شامل ہے۔ اقتصادی اقدامات بشمول تجارتی رخنہ اندازیاں  اورکرنسی میں ہیرا پھیری جیسے اقدامات بھی ففتھ جنریشن وار فیئر کا حصہ بنا لیے جاتے ہیں تاکہ مخالف ملک کی معیشت کمزور کی جاسکے   اور  عوام کو ریاست سے متنفر کیا جائے جبکہ یہ عوامل بھی پاکستان میں نظر آنے لگے ہیں۔اسی  طرح ثقافتی و سماجی تقسیم ، نسلی و فرقہ وارانہ ، علیحدگی پسند تحریکوں اور دہشت گردی کو فروغ دے کر متاثرہ ملک کو تقسیم در تقسیم کرنے کی حکمت ِ عملی پر بھی عمل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، الغرض یہ کہ اس جنگ میں تمام تر اخلاقی تقاضے ایک جانب رکھ کر دشمن ملک کو ہر طریقے سے نقصان پہنچایا جاتا ہے جس میں صرف براہِ راست جنگ شامل نہیں ہوتی، بصورتِ دیگر نقصان پہنچانے کا ایسا کوئی ہتھکنڈہ نہیں جو اس جنگ میں نہ اپنایا جاتا ہو۔

امریکا چین کی بڑھتی مخاصمت ۔۔۔خطے میں بھونچال اور آغا خان

پاکستان میں جاری ففتھ جنریشن وار کا یہ بھی پہلو ہے کہ امریکا کسی نہ کسی طرح چین کو سی پیک اور بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کی جانب پیش قدمی سے روک دینا چاہتا ہے۔ یہاں اگر اس بات کا ذکر بھی کردیا جائے کہ  جنرل مشرف کے زمانے میں مسئلۂ کشمیر کا حل تلاش کرنے کیلئے اقوامِ متحدہ  سے مذاکرات کی بات ہوئی ۔ابتدائی مراحل میں اقوامِ متحدہ کے زیر نگرانی ایڈمنسٹریٹر کی تعیناتی زیر غور تھی جس میں شنید یہ ہے کہ منصوبہ بنایا گیا کہ 10 سال کیلئے تمام کے تمام مقبوضہ و آزاد کشمیر کی سرگرمیاں منجمد کردی جائیں اور 10 سال بعد بھارت اور پاکستان اس مسئلے پر ایک بار پھر غور کریں کہ کشمیر کا کیا مستقبل ہوگا؟اس تمام تر مذاکراتی عمل کی سربراہی آغا خان کودی جائے تو غالباً بھارت، پاکستان، چین اور امریکا سب کیلئے قابلِ قبول بات  ہوگی۔

خطے میں شامل تمام حکومتوں کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے تنازعات کے حل کیلئے متفقہ فلسفہ اپنانا بے حد ضروری ہے جس سے کلیدی  نتائج حاصل ہوسکتے ہیں۔ یہ امر اہم ہے کہ  اقوامِ متحدہ  کو امریکا اور اس کے اتحادی پسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں جبکہ چین انسانی حقوق کے تناظر میں اپنے خیر خواہی پر مبنی رویے کے ذریعے خطے کی کشیدگی کم کرنے میں سہولت کار کے طور  پر آغاخان  کے کردار پر معترض نہیں ہوگا۔ غور طلب نکتہ یہ ہے کہ آغا خان   گلگت بلتستان  اور وسطی ایشیائی ممالک میں متعدد پراجیکٹس  میں مصروفِ عمل ہیں۔یہ بنیادی طور پر چین اور روس دونوں کے جغرافیائی و سیاسی نقطہ نظر میں اضافہ کرتا ہے جو امن برقرار رکھنے کے خواہاں ہیں اور اس سے وسطی ایشیائی ممالک پر ان کے مسلسل اثر و رسوخ کے مقاصد بھی پورے ہوجاتے ہیں۔

اس بدلتے عالمی منظر نامے میں پاکستان کو پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہوگا جو اسی صورت ممکن ہے کہ جب اس کام پر مامور وزارتِ خارجہ میں بصیرت آمیز اور چار وں جانب نظر رکھنے والے  دانشمندی کے حامل افسران کو تعینات کیا جائے، جس کا فی الحال فقدان نظر آتا ہے۔دنیا کے ان تیزی سے ابھرتے ہوئے حالات و واقعات سے نبرد آزماہونا  بے حدضروری ہے اور اس انتہائی پیچیدہ جیو پولیٹیکل صورتحال سے نمٹنے کی منصوبہ بندی میں غلطی کی کوئی گنجائش نہیں  جبکہ آج کی کسی بھی نااہلی اور لغزش کا خمیازہ پاکستان کو صدیوں بھگتنا پڑے گا۔

Related Posts