وفاقی حکومت نے جاتے جاتے بھی عوام پر پیٹرول بم گرانے سے گریز نہیں کیا، چنانچہ گزشتہ روز دن دہاڑے ایک نادر شاہی فرمان کے تحت جو علی الفور نفاذ کیلئے تھا، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں فی لیٹر 19 روپے 95 پیسے تک کا بڑا اضافہ کردیا گیا جس کے اثرات بھی ہر طرف اشیاء کے نرخوں کو پر لگنے کی صورت میں فوری اور نقد ہی ظاہر ہوگئے ہیں۔
ایندھن کی قیمتوں میں چلتے چلتے بڑی آسانی سے کیا جانے والا یہ اضافہ پہلے سے شدید ترین مہنگائی کی چکی میں بری طرح پسنے والے عوام کیلئے ”مرے پر سو درے“ کے مترادف ہے، جس سہولت اور بے فکری سے ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کی نئی قسط جاری کی گئی ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومتی زعما مکمل طور پر بے حسی کی کھال اوڑھ چکے ہیں اور انہیں اس بات کی سرے سے کوئی پروا نہیں ہے کہ یہ ”ناگزیر“ اضافہ عوام پر کیا قیامت ڈھادے گا اور اس کے نتیجے میں کن کن شعبوں میں زندگی کا قافیہ مزید تنگ ہوجائے گا۔
حکومت کے مسلسل ایسے ہی عاقبت نا اندیشانہ فیصلوں نے ملک میں امیر اور غریب کا فرق ہی مٹا دیا ہے، مسلسل بڑھتی ہوئی بے لگام مہنگائی اور گرانی نے بلا تفریق زد میں آنے والے ہر فرد کو پچھاڑ دیا ہے اور اب غریب اور امیر کا کوئی لحاظ باقی نہیں رہا ہے۔
نا اہل حکمرانوں کی ناکام پالیسیوں کے نتیجے میں متوسط طبقہ تو کب کا عنقا ہوچکا ہے، امیر اور غریب میں تفریق کی ایک کمزور سی دیوار حائل تھی، سو وہ بھی اب مہنگائی کی منہ زور لہریں سہتے سہتے ڈھے گئی ہے اور اب گرانی کی ہر نئی قسط بلا تفریق ہر طبقے کو یکساں مشکلات کی دلدل میں مزید دھنسا دیتی ہے۔
ایک ایسے وقت جب حکومت اپنی مدت ختم کرنے کے قریب ہے، اس امید کا اظہار کیا جا رہا تھا کہ حکومت ایندھن کے نرخ میں کمی نہ بھی کرے تو اضافے سے ضرور گریز کرے گی، مگر حکومت نے نہایت سفاکی، قساوت، سنگدلی اور بے رحمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پٹرول کی قیمت میں نہ صرف اضافہ کر دیا بلکہ ٹھیک ٹھاک اضافہ کر دیا۔
پٹرول کی قیمت میں فی لیٹر بیس روپے تک کا اضافہ جہاں سنگدلی اور بے حسی کا شاہکار ہے وہاں یہ اس امر کا بھی غماز ہے کہ حکومت کے پاس قرض کا بوجھ اتارنے اور ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کیلئے سارا بوجھ عوام کی پہلے ہی جھکی ہوئی نحیف و نزارکمر پر لادنے کے سوا کوئی دوسرا حل موجود نہیں ہے، جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ حکومت کے تمام کل پرزے انتہائی نا اہل، کام چور، ہڈ حرام اور انتظامی اہلیت سے بالکل کورے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا ناگزیر اور مشکل فیصلہ کا عنوان دے کر تمام تر بوجھ عوام کی پشت پر لادتے چلے جانا مسئلے کا حل ہے؟ کیا اس سے معیشت بحران سے نکل سکے گی؟ قرض ادا ہوجائیں گے؟ آخر یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا؟ معاشی بحالی کے نعرے تو بڑے زور دار لگائے جا رہے ہیں، یہاں تک کہ یہ حکومت قائم ہی معیشت کی بحالی کیلئے ہوئی تھی، مگر لگ بھگ دو سال تک کے اس عرصے میں معیشت بحالی کا یہی ایک فارمولا دکھائی دے رہا ہے کہ بے رحمی سے ایندھن کے نرخ سے عوام کا تیل نکالا جائے اور عوام کی جیب سے ہی معیشت کی بحالی کی قیمت ادا کی جائے۔
”بحالی“ کے اس غیر دانشمندانہ بلکہ سفاکانہ طریق کار نے عوام کو بری طرح بے حال کرکے رکھ دیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ معاشی استحکام کا اگر یہی فارمولا حکومت کے پاس ہے تو اس کیلئے حکومت سے چمٹے رہنے اور عوام کی اذیتوں کا وبال سمیٹنے کا کیا جواز ہے، یہ کارنامہ تو وزارت خزانہ کا ایک انڈر سیکرٹری بھی انجام دے سکتا ہے۔
کیا اسحاق ڈار کی وہ معاشی جادوگری اور فنی مہارت و قابلیت یہی ہے جس کا ن لیگ اور اس کے اتحادی ڈھنڈورا پیٹتے اور مخالفین کو نا اہلی کا طعنہ دیتے پھرتے تھے؟
حقیقت یہی ہے کہ اب تک کے معیشت و انتظام کے یہ سنگین ترین حالات اس امر کا غماز ہیں کہ ”کفن چور کا باپ“ غنیمت تھا، ثابت یہی ہو رہا ہے کہ تجربہ کاروں کا تمام تر ماہرانہ تجربہ اپنا مفاد محفوظ رکھنے میں ہی تھا اور یوں کھلی آنکھوں سے نظرآرہا ہے کہ ان بد ترین حالات میں بھی حکمران اور ان کا دسترخانی طبقہ نہ صرف اپنی مراعات سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں ہے بلکہ انتہائی بے شرمی، ڈھٹائی، بے حسی اور سفاکی سے ان میں اضافہ بھی کیے جا رہا ہے۔
معاشی ابتری کے ان آزمائش سے بھرپور حالات میں آئے دن چیئرمین سینیٹ، ارکان پارلیمان، فوجی و سول افسران، اپنے فرائض سے انصاف کے باب میں دنیا میں 120 ویں شرمناک درجے پر فائز عدلیہ کے جج صاحبان و عملہ، وزرا اور ارکان حکومت کی مراعات، مفت بجلی، مفت گیس، مفت پٹرول، مفت رہائش، مفت سفر اور تنخواہوں میں کھل کھلا کر اضافے کی خبریں عوام پر بجلیاں گرا رہی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کے بد قسمت عوام کو نہ صرف دنیا کے نا لائق اور نا اہل ترین حکمرانوں اور انتظامی حکام سے واسطہ پڑا ہوا ہے، بلکہ پاکستان کے عوام کسی بھی طرح کے احساس ذمے داری، فکر مندی اور جوابدہی کے خوف سے عاری اور بے نیاز حکمران اشرافیہ کے حصار میں مقید ہیں۔
حکمرانوں کی نالائقی اور بے حسی کا عالم یہ ہے کہ انتظامی خرابیوں کو دور کرنے، بیورو کریسی میں فنڈز کے بے تحاشا ضیاع اور کرپشن کا در بند کرنے اور معاشی استحکام کیلئےٹھوس اور جامع پیداواری منصوبہ بندی پر توجہ دینا تو رہا ایک طرف، یہ اپنی اور اپنے طبقے کی ناجائز اور شاہانہ مراعات تک میں کمی کے روادار نہیں ہیں۔
صورتحال یہ ہے کہ سابقہ دور حکومت میں مہنگائی اور گرانی پر احتجاجی تحریکیں چلانے والے آج خود لولے لنگڑے حیلے بہانوں کا سہارا لیکر عوام بے رحمی سے عوام کو مہنگائی کے جان لیوا غوطے دیتے جا رہے ہیں اور ستم بالائے ستم یہ کہ نا اہل اور سفاک حکمرانوں کا یہ ٹولہ اسی عوام دشمن کارکردگی کے ساتھ اگلے انتخابات میں دوبارہ عوام کی گردن پر مسلط ہونے کی غیر دستوری و غیر جمہوری منصوبہ بندی بھی کر رہا ہے، تاہم نا اہل حکمران اتحاد کو جان لینا چاہیے کہ اپنی سفاکی اور نا اہلی کے باعث وہ عوام کے دلوں سے اتر چکے ہیں۔ مصنوعی سہاروں سے ان کی واپسی مزید مسائل کو جنم دے گی۔