ٹریفک حادثے کے باعث معذور ہوکر وہیل چیئر تک محدود امجد صدیقی بہت سے تندرست لوگوں سے زیادہ بہتر، ہنر مند اور با صلاحیت ہیں۔ خود دیکھئے کہ معذوری کے باوجود وہ گزشتہ تین دہائیوں کےدوران 52 ممالک دیکھ چکے ہیں اور یہ سارا سفر انہوں نے وہیل چیئر پر کیا ہے۔
57 سالہ امجد صدیقی 1981 میں سعودی عرب میں ایک حادثے میں جسم کے نچلے حصے سے محروم ہوگئے۔ اس حادثے کے بعد سے وہ وہیل چیئر تک محدود ہیں اور ایک لاعلاج بیماری سے مقابلہ کر رہے ہیں، لیکن انہوں نے اپنی بیماری اور معذوری کو مجبوری نہیں بننے دیا، بلکہ اس بیماری اور معذوری کے ساتھ انہوں نے وہ کارنامے انجام دیے جن کا تصور بہت سے تندرست افراد بھی کم ہی کر پاتے ہیں۔
حادثے کے بعد امجد صدیقی سعودی دار الحکومت ریاض میں نو ماہ تک زیر علاج رہے، اس کے بعد دس ماہ لندن میں بحالی کی کوششوں میں گزارے، مگر تمام تر علاج سے ان کے زخم ہی ٹھیک ہوسکے، جبکہ معذوری ختم نہ ہو پائی۔
بد قسمتی سے معذوری کے ساتھ پاکستان واپسی پرانہیں معاشرے کی طرف سے ناموافق طرز عمل کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کا کہنا ہے کہ جب وہ معذور ہوکر وطن واپس لوٹے تو بہت سے لوگوں نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا، یہاں تک کہ ان کی منگیتر نے بھی ساتھ چھوڑ دیا اور اس کے گھر والوں نے ایک معذور مرد سے طے پانے والی اس کی نسبت ختم کر دی۔
’’معذوری کی زندگی صحرا کی تپتی ریت اور دہکتے کوئلوں پر چلنے جیسا ہے، مجھے اپنی معذوری کےساتھ زندگی کے صحرا میں اکیلے ہی چلنا پڑا۔‘‘ امجد صدیقی نے بڑے دکھی لہجے میں کہا۔ ’’اس لیے میں نے صبر، شکر اور استقامت کا راستہ اختیار کیا، جس نے میری زندگی کے بند راستے ایک ایک کرکے کھولے۔ پھر میں نے سخت محنت، دیانتداری اور اصولوں کے ساتھ وفاداری کا عہد کیا۔ جس کے نتیجے میں تیزی سے کامیابی کی راہ پر گامزن ہو گیا۔”
معذور امجد صدیقی نے اپنی سوانح عمری بھی لکھی ہے، جسے انہوں نے “درد کا سفر” کا عنوان دیا ہے، اس کتاب میں انہوں نے اب تک کے اس سارے سفر کا احوال بیان کیا ہے، جو انہوں نے بیماری اور معذوری کے ساتھ طے کیا ہے۔
کتاب میں جہاں انہوں نے اپنی زندگی کی مشکلات کا تذکرہ کیا ہے وہاں انہوں نے نا مساعد حالات اور مشکلات سے مایوس نوجوانوں کو ہمت، امید اور حوصلے کا پیغام بھی دیا ہے۔ انہوں نے سخت مایوس کن حالات سے نبرد آزما نوجوانوں کو بطور خاص یہ مشورہ دیا ہے کہ کوئی بھی انتہائی قدم اٹھانے سے پہلے وہ ان کی کتاب کا ایک بار ضرور مطالعہ کریں۔
مختلف ملکوں کے اپنے سفر کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ معذوری کے بعد وہ اپنے جیسے اسپیشل افراد کے متعلق شعور اجاگر کرنے کے لیے دنیا کا سفر کرنا چاہتے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ دنیا کے مختلف ملکوں کے سفر کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ مختلف ملکوں میں معذورین کی بحالی کیلئے اقدامات اور مراکز کا جائزہ لیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری سوسائٹی میں بد قسمتی سے معذور افراد کی حوصلہ شکنی کا ہی رجحان ہے، ان کی بحالی اور انہیں کارآمد شہری بنانے پر کوئی توجہ ہے اور نہ ہی معذور افراد کو کسی کام کا پرزہ سمجھا جاتا ہے، مجموعی طور پر معاشرہ معذور افراد کو ایک بوجھ کی نگاہ ہی سے دیکھتا ہے، یہ روش بدلنے کی ضرورت ہے۔
امجد صدیقی نے کہا کہ انہوں نے حادثے کے بعد خود کو ریڑھ کی ہڈی کے علاج پر تحقیق کے لیے پیش کیا، چنانچہ اب تک ان کے 30 سے زیادہ آپریشن ہوئے جن کی بدولت سائنسدانوں کو اس نایاب طبی حالت کے بارے میں جاننے میں مدد ملی۔
امجد صدیقی کا کہنا ہے کہ ان کا ماننا ہے کہ جسمانی طور پر معذور افراد نارمل زندگی گزار سکتے ہیں لیکن اس کے لیے انہیں خود پر اعتماد ہونا چاہیے۔
امجد صدیقی معذور اور اسپیشل افراد کیلئے امید کی کرن ہیں، انہوں نے پچھلے چالیس سالوں میں معذوروں کے لیے مختلف ورکشاپس اور ہسپتالوں میں ٹریننگ سیشنز کیے ہیں اور ایسے مریضوں کو دوبارہ اٹھ کھڑا ہونے میں مدد فراہم کی ہے جو سالہا سال سے ہسپتال میں پڑے ہوئے تھے۔
امجد صدیقی کی ان کاوشوں کے اعتراف میں انہیں نعیم خان ریسرچ لیب ایوارڈ، جناح ویلفیئر سوسائٹی کی جانب سے جناح ایوارڈ سمیت متعدد اداروں کی جانب سے اعزازات سے نوازا گیا ہے۔