پی ڈی ایم میں پھوٹ اور انتخابات

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ملک کی سیاسی صورتحال ایک نئے دور میں داخل ہونے والی ہے۔ وفاقی وزرا اور دیگر سیاستدانوں کے بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ انتخابات اسی سال اور بر وقت ہوں گے۔

وزیر اعظم شہباز شریف کی زیرِ قیادت موجودہ وفاقی حکومت کی مدت اگلے ماہ کے آغاز میں ختم ہوجائے گی۔ اسمبلیاں تحلیل ہوجائیں گی جس سے عام انتخابات کی راہ ہموار ہوتی دکھائی دیتی ہے۔

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کا مستقبل حکومت کی مدت ختم ہونے سے قبل ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ تاحال حکومت کی اتحادی پارٹیوں میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ یا ایک ہی بینر تلے الیکشن لڑنے کی کوئی اطلاع نہیں اور تمام پارٹیاں آزادانہ طور پر عام انتخابات کے میدان میں اترنے کیلئے منصوبہ بندی میں مصروف ہیں۔

ایک سال سے زائد عرصے تک جاری رہنے والی سیاسی کشمکش کے بعد اتحادی حکومت بالآخر تحلیل کی جانب بڑھ رہی ہے جو اس کا آخری پڑاؤ ہوگا۔

حکومت کی مدت ختم ہونے کے قریب ہے اور اسی دوران پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے دبئی میں مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی قیادت کے مابین حالیہ ملاقاتوں میں اعتماد میں نہ لیے جانے کی شکایت کی۔

دبئی میں نواز شریف اور آصف علی زرداری کے مابین ملاقاتیں اہمیت اختیار کرچکی ہیں جن میں نئے عبوری سیٹ اپ اور عام انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے مستقبل کے سیاسی منظر نامے پر تبادلۂ خیال کیا۔ جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے سیاسی مشاورت نہ کرنے پر مایوسی کا اظہار کیا۔

بالآخر سابق وزیر اعظم نواز شریف نے یہ تناؤ کم کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف کو یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ مولانا فضل الرحمان کو منائیں اور کم از کم فی الحال سیاسی اتحاد برقرار رکھیں۔

گزشتہ 5سالوں میں 2 مختلف حکومتوں نے ملک پر راج کیا جس سے سیاسی بحران تشویشناک ہوگیا۔ اپریل 2022 میں پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے نے مخلوط حکومت کے اقتدار کی راہ ہموار کی۔ 11 جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم کی حکومت افراتفری اور غیر یقینی صورتحال کا شکار رہی۔

قبل از وقت انتخابات کی بجائے پی ڈی ایم حکومت نے اپنی مدت پوری کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔ تاہم امید ہے کہ الیکشن رواں برس ہوں گے اور لوگوں کو اپنے حکمرانوں کو خود چننے کا اختیار دیا جائے گا۔

یہ ایک اور سوال ہے کہ کیا انتخابات آزادانہ، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ ہوں گے یا نہیں؟ کیونکہ ہر سال انتخابات میں دھاندلی کے الزامات ہمارا قومی شعار بنتے جارہے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ مشکلات کا شکار پی ٹی آئی جیتنے کی پوزیشن میں نہ ہو لیکن اپنے مخالفین کا بھرپور مقابلہ ضرور کرسکتی ہے۔

دوسری جانب جہانگیر ترین کی پارٹی استحکام پاکستان شاید ملک کی آئندہ کی سیاسی صورتحال میں کوئی فیصلہ کن کردار ادا نہ کرسکے، پھر بھی یہ امید اپنی جگہ قائم رہے گی کہ آئندہ آنے والے دور میں ملک سیاسی بحران سے نکلے اور معاشی صورتحال بھی بہتری کی جانب لوٹ آئے۔آنے والے دنوں میں پی ڈی ایم جماعتوں کے مابین مزید بڑے اختلافات کے خدشات بھی جنم لیتے رہیں گے۔ 

Related Posts