بجٹ کی منظوری

مقبول خبریں

کالمز

zia
برسوں ایران میں رہنے والی اسرائیلی جاسوس خاتون کی کہانی
Philippines, Pakistan, National Day, Dr. Emmanuel Fernandez, bilateral ties, diplomacy, climate change, development, peace, trade, education, cultural exchange, sustainable future, regional cooperation, Mabuhay, Filipino community, Islamabad celebration, soft power, South-South partnerships, innovation, resilience, post-colonial nations, mutual respect, global south
مشترکہ جدوجہد اور روشن مستقبل کی ایک خوبصورت تقریب
Munir-Ahmed-OPED-768x768-1-750x750
روسی کے قومی دن کی خوبصورت تقریب

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

حکومت نے عالمی مالیاتی ادارے کو مطمئن کرنے اور آئی ایم ایف پروگرام کو محفوظ بنانے کیلئے کئی ترامیم کے ساتھ آئندہ مالی سال کا بجٹ منظور کر لیا ہے۔

یہ پی ڈی ایم حکومت کا آخری بجٹ بھی ہے جو ایک شدید معاشی بحران سے گزر رہی ہے۔  ایسا لگتا ہے کہ فنڈز اکٹھا کرنے کا واحد حل پہلے سے ہی بوجھ تلے دبے عوام پر مزید ٹیکس لگانا ہے۔ بجٹ میں حکومت نے 215 ارب روپے کے اضافی ٹیکسز لگائے اور اخراجات میں 85 ارب روپے کی کمی کی ہے۔

تحریکِ انصاف جیسی اپوزیشن کی عدم موجودگی میں بجٹ اکثریت کے ساتھ پارلیمنٹ میں پیش اور منظور ہوا۔ نظرثانی شدہ فنانس بل 24-2023ء میں تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ حکومت نے محصولات کی وصولی کے ہدف کو بڑھا کر 9.415 ٹریلین کر دیا۔ ڈیولپمنٹ لیوی کو دس روپے بڑھا کر زیادہ سے زیادہ 60 روپے فی لیٹر کرنے کے باعث پیٹرول کی قیمت بھی بڑھنے والی ہے۔

اس کے اثرات واضح طور پر جلد نظر آئیں گے کیونکہ اس سے معاشی بحران مزید بڑھے گا اور عوام پر بوجھ پڑے گا۔ بجٹ میں تبدیلیاں ایک ایسے وقت میں کی گئیں جب وزیر اعظم شہباز شریف نے پیرس میں سربراہی اجلاس کے موقع پر آئی ایم ایف کی سربراہ سے ملاقات کی اور ان پر فنڈز جاری کرنے پر زور دیا۔

یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ وزیر اعظم نے آئی ایم ایف سے معاہدے کو بچانے کی آخری کوششوں میں تیسری میٹنگ کی۔2019ء میں طے شدہ آئی ایم ایف کا قرضہ پروگرام چند دنوں میں یعنی 30 جون کو ختم ہو رہا ہے۔

گزشتہ برس نومبر سے پاکستان 1.1 ارب ڈالر کی اگلی قسط حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ گزشتہ سال پی ٹی آئی کی حکومت کے خاتمے کے بعد پیدا ہونے والے سیاسی بحران اور اتحادیوں کی جانب سے انتخابات کے انعقاد پر عدم رضامندی نے صورتحال کو مزید گھمبیر بنا دیا۔
جب وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے 9 جون کو بجٹ پیش کیا تو اس میں شرح نمو موجودہ 0.6 فیصد سے 3.5 فیصد، مہنگائی کو 38 فیصد کی بلند ترین سطح سے 21 فیصد تک کم کرنے اور دیگر محصولات پیدا کرنے والے اقدامات کو غیر حقیقی قرار دے کر مسترد کر دیا گیا۔ حتیٰ کہ اتحادی جماعت پیپلز پارٹی بھی سیلاب متاثرین کے لیے اضافی فنڈز کی یقین دہانی سے قبل خوش نہیں ہوئی۔
تنخواہوں میں اضافے کا فیصلہ برقرار رکھا گیا کیونکہ حکومت کو بیوروکریٹس کی ناراضگی کا خطرہ ہے۔ جیسے جیسے پنشن بل میں اضافہ ہوا، حکومت نے بے ضابطگیوں کو دور کرنے کے لیے اصلاحات کیں۔ لیپ ٹاپ اسکیم کو انتخابی سال میں مقبول اقدامات کے حصے کے طور پر منظور کیا گیا ہے۔ لگتا ہے حکومت نے اپنی آخری ذمہ داری پوری کر دی ہے اور اب معاشی بدحالی سے دوچار عوام کو اس حکومت کا ساتھ دینے کیلئے ہمت مجتمع کرنی ہے۔

Related Posts