سمندری طوفان کی غیر محفوظ رپورٹنگ

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گزشتہ روز تک سمندری طوفان بیپر جوائے کے متعلق مختلف خبریں عوام الناس میں خوف و ہراس پھیلاتی رہیں اور ہزاروں افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل بھی کیا گیا۔

سندھ حکومت سمندری طوفان کی آمد کے موقعے پر اچھی خاصی متحرک نظر آئی۔ وزیرِ موسمیاتی تبدیلی شیری رحمان نے سمندری طوفان پر پریس کانفرنس بھی کی تاہم اب یہ طوفان کمزور ہو کر شدید ڈپریشن میں تبدیل ہوگیا ہے۔

حال ہی میں سمندری طوفان کی رپورٹنگ کرنے والی خاتون رپورٹر زم زم سعید پر غیر محفوظ رپورٹنگ کرنے پر عوام نے سوشل میڈیا پر شدید تنقید کی۔ ایک معروف اداکارہ نے کہا کہ ان کی رپورٹنگ لائیکس حاصل کرنے کا بہانہ تھی۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ صحافی عوام کو تو ہدایت کرتے ہیں کہ طوفان سے بچنے کیلئے حفاظتی اقدامات کریں لیکن خود کچھ لائیکس اور کلکس کیلئے اپنی زندگی خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔ عوام نے بھی خاتون رپورٹر کے فعل کو مشہور ہونے کا بہانہ کہا۔

اس سے قطعِ نظر کہ سمندری طوفان کس قدر خطرناک ہے، صحافیوں کا کام عوام تک سچ پہنچانا ہوتا ہے۔ اس تگ و دو میں متعدد صحافی اپنی جان خطرے میں ڈالنے سے کبھی نہیں چوکتے، ایسے ہی صحافی دہشت گردی کی رپورٹنگ کیلئے افغانستان پہنچ جاتے ہیں۔

کتنے ہی صحافی اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کے دوران اپنی زندگی کی بازی ہار گئے، تاہم یہ سلسلہ جوں کا توں ہے اور عوام کو سچ دکھانے کیلئے جذباتی ہو کر متعدد صحافی ایسے اقدامات بھی اٹھا لیتے ہیں جو ان کی زندگی خطرے میں ڈال دیں۔

سمندری طوفان کے باعث کراچی میں کئی کئی فٹ بلند لہریں اٹھیں اور سمندری پانی بعض علاقوں میں گھروں میں بھی داخل ہوگیا۔ متعدد دکانیں اور کاروبار بھی سمندری پانی سے متاثر ہوئے۔

ایک جانب تو یہ بات کسی بھی طرح ذمہ دارانہ قرار نہیں دی جاسکتی کہ رپورٹنگ کرتے ہوئے پانی کی لہریں کسی ٹی وی چینل یا ویب ٹی وی کے رپورٹر کو پوری طرح بھگو دیں اور دوسری جانب اس کی زندگی کو بھی خطرات لاحق ہوں۔

ضروری ہے کہ میڈیا چینلز اپنے رپورٹرز اور صحافیوں کو واضح ہدایات دیں کہ اگر ان کی جان کو خطرات لاحق ہوں تو واقعات کی رپورٹنگ دور سے یا پھر ایسے واقعات سے گزرنے والے افراد کے انٹرویوز لے کر بھی کی جاسکتی ہے۔

ہر واقعے کی کوریج کیلئے صحافیوں کا لائیو جانا ضروری نہیں ہے، تاہم لائیو اسٹریمز پر عوام الناس کا رش دیکھتے ہوئے میڈیا چینلز صحافیوں کو ایسے ایڈونچر کیلئے مجبور کرسکتے ہیں۔ کسی بھی خاتون رپورٹر پر تنقید کرنے سے قبل عوام الناس کو اس کی ممکنہ مجبوریوں کو بھی ملحوظِ خاطر رکھنا چاہئے۔

Related Posts