میڈیا کے فرائض اور قدغنیں

مقبول خبریں

کالمز

Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟
Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

قیامِ پاکستان کے سال یعنی 1947ء سے لے کر اب تک مملکتِ خداداد کی پوری تاریخ مختلف مسائل اور معاشی مشکلات سے عبارت رہی ہے اور میڈیا کا یہ فرض تھا کہ عوام تک تمام تر حقائق سچائی سے پہنچائے جاتے۔

افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ میڈیا ہو، سیاستدان، عسکری حکام یا پھر عدلیہ، ریاست کے کسی بھی ستون کی جانب سے یہ آج یہ دعویٰ نہیں کیاجاسکتا کہ اس نے اپنے فرائض کماحقہٗ سرانجام دئیے ہیں۔

عسکری حکام پر الزام ہے کہ انہوں نے بار بار مقنّنہ کے معاملات میں مداخلت کی، عدلیہ پر بھی الزام ہے کہ انہوں نے ڈکٹیٹرز کی معاونت کی اور سیاستدانوں پر ہر دور میں بدعنوانی، رشوت ستانی اور اقرباء پروری کے الزامات لگتے اور ثابت بھی ہوتے رہے ہیں۔

اگر میڈیا کی بات کی جائے تو میڈیا نے بھی اپنے فرائض ذمہ داری سے کسی بھی دور میں پورے نہیں کیے۔ عوام تک سچائی تو پہنچی لیکن وہی جو ڈکٹیٹرز نے پہنچنے دی اور جو حکومت نے دکھانا چاہا، میڈیا کو وہی باتیں عوام تک لانی پڑیں، لیکن پھر میڈیا کو آزادی مل گئی۔

امید کی جارہی تھی کہ میڈیا کو آزادی ملنے کے بعد حالات درست ہوجائیں گے، لیکن ایسا بھی نہیں ہوا۔ میڈیا جو سیاستدانوں کی رشوت ستانی، اقربا پروری اور کرپشن کے راگ الاپا کرتا تھا، آج خود عوام کے سامنے بے نقاب ہو کر بھی خود کو درست ثابت کرنے کی کوشش میں ہے۔ 

پھر سیاستدان بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ گزشتہ دور میں عمران خان حکومت اور اب شہباز شریف حکومت بھی میڈیا پر قدغنیں لگانے میں کسی سے پیچھے نہیں جس کا مقصد صرف ایک ہی ہوسکتا ہے کہ عوام کو تصویر کا وہی رخ دکھایا جائے جس میں حکومت کے تمام تر اقدام خوبصورت اور قابلِ تحسین کے سوا کچھ نہ لگیں۔

گزشتہ روز معروف میزبان صابر شاکر، معید پیرزادہ اور سیّد اکبر حسین پر مقدمات درج کیے گئے کہ انہوں نے 9 مئی کو سوشل میڈیا کے ذریعے اداروں کے خلاف بغاوت پر اکسایا۔ معروف یو ٹیوبر عادل راجہ کی گرفتاری کی اطلاعات بھی سامنے آئیں۔

کچھ ہی عرصہ قبل لاپتہ ہونے والے ٹی وی میزبان اور معروف صحافی عمران ریاض خان کے متعلق گزشتہ روز ہی لاہور ہائیکورٹ نے پولیس کو 10 روز کی مہلت دی کہ انہیں بازیاب کرائیں۔

تشویشناک بات یہ ہے کہ پاکستان معاشی اعتبار سے اپنے بد ترین دور سے گزر رہا ہے جب متعدد معاشی ماہرین یہ رائے دے چکے ہیں کہ پاکستان معاشی طور پر ڈیفالٹ کرچکا، صرف حکومت کی جانب سے اعلان کی دیر ہے، جسے وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے شرمناک قرار دیا۔

اسحاق ڈار کے بیان کے مطابق اگر کوئی شخص یہ کہے کہ پاکستان ڈیفالٹ کر گیا یا کرنے والا ہے تو اسے شرم آنی چاہئے۔ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ پاکستان ڈیفالٹ نہیں کرے گا۔ بفرضِ محال اگر اسحاق ڈار کی بات مان بھی لی جائے تو معاشی بدحالی سے تو کسی صورت انکار ممکن نہیں۔

زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی جانب سے گرے لسٹ میں رکھے جانے کے باعث جو معاشی پابندیاں سہنی پڑیں اور جن پابندیوں کا پاکستان کے ڈیفالٹ کے نزدیک پہنچ جانے میں بھی کردار نظر انداز نہیں کیاجاسکتا، ان کی وجوہات میں میڈیا پر قدغنیں بھی شامل ہیں۔

یقیناً میڈیا پر قدغنوں کو ایف اے ٹی ایف کی جانب سے اتنی اہمیت حاصل نہیں جتنی کہ دہشت گردوں کی مالی معاونت اور منی لانڈرنگ جیسے اقدامات کو حاصل ہے، تاہم ایف اے ٹی ایف سمیت دیگر عالمی ادارے کسی بھی ملک میں قانون کی حکمرانی کو بے حد اہمیت دیتے ہیں اور میڈیا پر قدغنیں، صحافیوں کا لاپتہ ہوجانا اور ان پر مقدمات کا اندراج بھی ایسے ہی عوامل میں شامل ہیں۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومتِ وقت ان مسائل کو سمجھے اور ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے آگے آئے تاکہ پاکستان کے معاشی مسائل کے حل کی راہ بھی ہموار ہوسکے۔ 

Related Posts