شعبۂ تعلیم کی حالتِ زار

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پاکستان میں تعلیم کی حالت طویل عرصے سے تشویشناک رہی ہے، مختلف حکومتوں کو درپیش متعدد چیلنجز اور پریشان کن مسائل اس اہم شعبے میں پیشرفت کی راہ میں بڑی رکاوٹ ثابت ہوئے ہیں۔

رواں برس یہ عیاں ہے کہ پاکستان کو ان چیلنجز سے نمٹنے اور تعلیمی نظام میں واضح بہتری لانے کے لیے اہم اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ذیل میں ایسے ہی کچھ حقائق کا جائزہ لیا جارہا ہے۔

پہلی اور اہم بات یہ ہے کہ پاکستان میں خواندگی کی شرح خطرناک حد تک کم ہے، ایک اندازے کے مطابق 2 کروڑ 26 لاکھ بچے سکول نہیں جاتے اور مجموعی طور پر خواندگی کی شرح صرف 58 فیصد ہے۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے حکومت کو معیاری تعلیم تک عوامی رسائی کو یقینی بنانے کی کوششوں کو ترجیح دینی چاہیے۔ یہ مقصد جامع تعلیمی پالیسیوں کی ترقی اور نفاذ کے ذریعے حاصل کیا جا سکتا ہے جو کہ اندراج کی شرح بڑھانے پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔ 

خاص طور پر ان پسماندہ علاقوں کے بچوں کے لیے جنہیں تعلیم تک رسائی میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ تعلیمی انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری اور دور دراز اور پسماندہ علاقوں میں اسکولوں کو مناسب وسائل فراہم کرنا تعلیمی تقسیم کو ختم کرنے کے لیے بہت ضروری ہے۔

 ملک میں فراہم کی جانے والی تعلیم کے معیار کو بہتر بنانا  بھی ضروری ہے۔ صرف اسکولوں میں بچوں کے داخلوں کی تعداد میں اضافہ کافی نہیں۔ تعلیمی نظام کو مؤثر تدریس اور سیکھنے کے تجربات فراہم کرنے کے لیے تمام تر سازو سامان سے لیس ہونا چاہیے۔ اس کے لیے اساتذہ کے تربیتی پروگرامز، نصاب میں اصلاحات اور جدید تدریسی طریقوں کے انضمام پر توجہ دینا ہوگی۔

اساتذہ کے لیے پیشہ ورانہ ترقی کے مواقع میں سرمایہ کاری کرکے اور تدریس کے جدید طریقوں کو فروغ دے کر پاکستان تعلیم کے مجموعی معیار کو بڑھا سکتا ہے اور سیکھنے کے زیادہ سازگار ماحول کو فروغ بھی دیا جاسکتا ہے۔

تعلیمی مسائل کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ مختلف خطوں اور سماجی اقتصادی پس منظر میں تعلیمی مواقع میں فرق ہوتا ہے۔ صوبہ پنجاب نے پنجاب ایجوکیشن سیکٹر پلان (پی ای ایس پی) کے ذریعے اپنے تعلیمی شعبے کو ترقی دینے کے لیے اقدامات کیے ہیں  تاہم پاکستان میں تمام بچوں کے لیے معیاری تعلیم تک مساوی رسائی کو یقینی بنانے کے لیے قومی سطح پر اسی طرح کی کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔

ملک بھر میں یکساں نظام تعلیم کا نفاذ تعلیمی مساوات کو فروغ دینے میں مدد کر سکتا ہے۔ اس کے لیے مؤثر نفاذ کی حکمت عملیوں کے ساتھ ساتھ وفاقی اور صوبائی وزارت تعلیم کے درمیان ہم آہنگی کی ضرورت ہوگی۔

یہ یقینی بنانا بہت ضروری ہے کہ بجٹ میں تعلیم کے فنڈز کو مؤثر طریقے سے استعمال کیا جائے اور ان اقدامات کی طرف توجہ دی   جائے جو تعلیمی نظام کو درپیش بنیادی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے اہم ہوں۔ تعلیم میں سرمایہ کاری کو ترجیح دینا اور طویل مدتی اصلاحات پر مسلسل توجہ مرکوز رکھنا پاکستان کے مجموعی تعلیمی منظرنامے میں خاطر خواہ بہتری کا باعث بن سکتا ہے۔

شعبۂ تعلیم میں بین الاقوامی تعاون اور شراکت داری سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ غیر ملکی عطیہ دہندگان کے ساتھ تعاون اور ان کی مہارت کو بروئے کار لانا تعلیمی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے نئے نقطہ نظر اور اختراعی سوچ پیدا کرسکتا ہے۔ عالمی اداروں کو نہ صرف تعلیم کو فروغ دینے کیلئے پاکستان کی مالی امداد پر بلکہ علم کے اشتراک، صلاحیت کی تعمیر اور بہترین طریقوں کے تبادلے پر بھی توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔

آخر میں یہ کہنا ضروری محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کو 2023 اور اس کے بعد کی تعلیمی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے کثیر جہتی نقطہ نظر اپنانے کی ضرورت ہے۔ کم شرح خواندگی، ناکافی انفراسٹرکچر، تعلیم کا پست معیار، علاقائی عدم مساوات اور فنڈز کے مؤثر استعمال جیسے مسائل کو حل کرنا ہماری اہم ترجیح ہونی چاہئے۔ جامع پالیسیوں پر عمل درآمد، انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری، اساتذہ کی تربیت میں بہتری، مساوات کو فروغ دینے اور بین الاقوامی تعاون کو حاصل کرکے پاکستان ایک روشن مستقبل کی طرف بڑھ سکتا ہے جہاں تعلیم سب کے لیے قابل رسائی ہو اور ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرے۔

Related Posts