اسلام آباد: وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار 9 جون کو قومی اسمبلی میں بجٹ پیش کرنے کا فیصلہ کرچکے ہیں جبکہ بجٹ کا حجم 14600 اور خسارہ 7800ارب روپے ہونے کا امکان ہے۔
تفصیلات کے مطابق وفاقی بجٹ کا خسارہ رواں مالی سال کے متعینہ ہدف سے 75فیصد زیادہ ہونے کا خدشہ ہے۔ آئندہ مالی سال 24-2023ء کیلئے بجٹ خسارہ آمدن و اخراجات کے مابین فرق ملکی پیداوار کا کم و بیش 7 اعشاریہ 4فیصد ہوسکتا ہے۔
پہلے 9 ماہ میں چائے کی درآمدات میں 9 فیصد کمی
بعض میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ دفاعی بجٹ میں مطلوبہ اضافے کے بعد حکومت بجٹ کا 64فیصد قرض فراہمی اور دفاع پر خرچ کرسکے گی۔ بنیادی خسارہ 0.3فیصد ہونے کا خدشہ ہے جبکہ ملازمین کی تنخواہوں میں 20فیصد اضافہ زیرِ غور ہے۔
وفاقی وزیرِ خزانہ آئندہ مالی سال کیلئے 700 ارب کے ترقیاتی اخراجات کا جائزہ لینے کی ہدایت کرچکے ہیں۔ رواں مالی سال کیلئے شرحِ نمو 0.2 سے زائد رہی۔ گزشتہ مالی سال کے دوران حکومت نے 9.6کھرب روپے کا بجٹ منظور کیا تھا۔
رپورٹس کے مطابق آئندہ مالی سال کے بجٹ کا حکم 5 کھرب سے 14 اعشاریہ 6کھرب تک ہونے کی توقع ہے۔ سود ادائیگی کیلئے 7.5کھرب مختص کیے جاسکتے ہیں جو منظور شدہ بجٹ کے مقابلے میں ساڑھے 3کھرب یا 87فیصد زائد رہنے کا خدشہ ہے۔
شرحِ سود 21فیصد ہونے کے باعث آئندہ مالی سال کے دوران بجٹ کا 50فیصد حصہ ادائیگیوں پر صرف ہوگا۔ وزارتِ دفاع نے حکومت سے دفاعی اخراجات کیلئے 1.92کھرب روپے کا مطالبہ کیا تھا جسے پورا کرنے کی صورت میں منظور شدہ حجم سے 360ارب زائد مختص کرنا ہوں گے۔
صوبوں کے حصص کی ادائیگی کے بعد حکومت کے خالص محصولات کا تخمینہ 6.5 کھرب لگایا گیا ہے۔ ایف بی آر ٹیکس ہدف 9.2کھرب مقرر کرسکتی ہے تاہم جی ڈی پی کے حجم کے لحاظ سے اس کی شرح 8.7فیصد بنتی ہے۔
دوسری جانب وزارتِ خزانہ کا مطالبہ ہے کہ 1.2ٹریلین روپے ترقیاتی اخراجات مختص کیے جائیں تاہم وزارتِ خزانہ نے 700ارب مختص کیے۔ وزیرِ خزانہ نے 700ارب کی تخصیص کا بھی جائزہ لینے کی ہدایت کی تھی۔