پاکستان کو اپنے قیام سے اب تک مالی خساروں کا سامنا رہا ہے۔ پاکستان کے وجود میں آنے کے ساتھ ہی ملک کے محصولات اور اخراجات میں ایک بڑا فرق موجود تھا جس کوبینکوں، غیر ملکی مالیاتی اداروں کے قرض یا پھر دوست ملکوں کی مالی معاونت سے پورا کیا گیا۔
تاہم جیسے پاکستان کی عمر بڑھتی گئی ویسے ہی خسارے میں کمی ہونے کے بجائے اضافہ ہوتا چلا گیا جس کی وجہ سے بعض اوقات پاکستان کی خود مختاری بھی داؤ پر لگتی دکھائی دی ،اس وقت ملک میں صورتحال یہ ہے کہ کاروباری خسارہ دفاعی بجٹ سے زیادہ ہوگیاہے ۔ مالی سال 19ء-2018ء کے دوران کاروباری اداروں نے ایک ہزار 622 ارب روپے کا خسارہ کیاہے۔
پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت کے قیام کے بعد امید تھی کہ خسارے میں چلنے والے اداروں میں کچھ بہتری نظر آئے گی سے ملک میں معاشی استحکام آئے گا تاہم ان اداروں نے نئے پاکستان میں خسارے کے اپنے تمام ریکارڈ ہی توڑ ڈالے ہیں۔
موجودہ حکومت کی مثبت پالیسیوں کی بدولت ملک میں معاشی استحکام آرہا ہے، غیرملکی سرمایہ کاری بڑھ رہی ہے تاہم اب بھی ملک میں ٹیکس وصولیوں کا ہدف کسی صورت پورا نہیں ہورہاہے۔ حکومت نے کالا دھن سفید کرنے کے راستے بند کیے تو پورے ملک میں ایک شورسا مچ گیا۔
پراپرٹی ویلیو ایشن بڑھانے سے عام آدمی کا فائدہ ہوا لیکن کالا دھن رکھنے والوں کے لیے مشکلات پیدا ہوگئیں، ملک میں بڑی برآمدی صنعتوں کو اب بھی سیلز ٹیکس کی چھوٹ حاصل ہے، ان کی مقامی فروخت کو ٹیکس کے دائرے میں لایا گیا تو پھر ایک واویلہ مچ گیا ، پچاس ہزار کی خریداری پر شناختی کارڈ کی شرط رکھی گئی تو ہر طرف ہاہا کار مچ گئی اور حکومت کو مجبوراً کارروائیاں موخر کرنی پڑیں۔
چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی کا کہنا ہے کہ زراعت ، خدمات ، ہول سیل اور ریٹیل سیکٹر سے ٹیکس نہیں مل رہا ،صرف مینوفیکچرنگ کا شعبہ ہی ٹیکسوں کا بوجھ اٹھارہا ہے، عوام اور ایف بی آر کے درمیان اعتماد کا فقدان ہے جسے دور کرنے کے لیے ایف بی آر کو ٹیکنالوجی اور آٹو میشن کے ذریعے بے چہرہ’’فیس لیس ‘‘ بنایا جارہا ہے۔شبر زیدی نے کہا ہے کہ ایف بی آر کے سسٹم کو زیادہ سے زیادہ خودکار بنانے کی کوشش کررہے ہیں، امریکا کی طرز پر ٹیکس گزاروں کی معلومات جمع کی جائیں گی۔
چیئرمین ایف بی آر نے نشاندہی کی ہے کہ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری تاجروں کے علاوہ اسمال میڈیم سیکٹر میں کم قرض کی وجوہات کاروبار کا غیردستاویز ہونا ہے جس سے ٹیکس کا ہدف پورا نہیں ہو پاتا۔
یہ بات بالکل درست ہے کہ جب تک ٹیکس کا مربوط نظام نہیں ہوتاتب وقت تک نہ اہداف پورے ہوسکتے ہیں نہ ملکی معیشت مستحکم ہو سکتی ہے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ ایسا ٹیکس نظام وضع کیا جائے جس پر کسی کو تحفظات کا سامنا نہ کرنا پڑےاور ملک کو معیشت مستحکم ہوسکے۔