انصاف میں دیر ناانصافی کے مترادف

مقبول خبریں

کالمز

Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟
Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

رسول اللہ ﷺ نے دورِ جاہلیت میں دنیا کے بد ترین ظلم و ستم کے سامنے کلمۂ حق بلند کیا اور عوام کو عدل و انصاف فراہم کرکے دکھایا۔ سرورِ عالم ﷺ کی یہ حکومت ریاستِ مدینہ کہلائی۔

اگر ہم دورِ محمدی ﷺ پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے قریش کے ساتھ صلح حدیبیہ کا معاہدہ کیا اور اس کی اس سختی سے پاسداری کی کہ آج تک اس کی مثالیں دی جاتی ہیں۔

آگے چل کر آپ ﷺ کے نواسے نے دنیائے اسلام کو زندگی دینے کیلئے اپنی اور اپنے اہل و عیال کی قربانی دی جسے ہم واقعۂ کربلا کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ یزید ظلم اور امام حسین علیہ السلام کو ہر دور میں انصاف اور کلمۂ حق کا استعارہ سمجھا جاتا ہے۔

جب 1947ء میں 14اگست کے روز پاکستان قائم ہوا تو برصغیر کے مسلمانوں کو یہ امید ملی کہ ہم قرآنِ پاک پر عمل کریں گے، ہمارے نئے وطن میں عدل و انصاف کا نظام قائم ہوگا جہاں ہم اسلام کے اصولوں پر عمل کرسکیں۔

انتہائی افسوسناک بات یہ ہے کہ پاکستان میں عدل و انصاف کے اصولوں پر عملدرآمد تو دور کی بات ہے، انصاف فراہم کرنے کے بنیادی تقاضے ہی پورے نہیں کیے جاتے۔ گزشتہ 5 سال سے ملک کی اعلیٰ عدالتوں میں دائر 3لاکھ 80 ہزار 436مقدمات زیرِ التوا ہیں۔

گزشتہ 5 سال سے سپریم کورٹ میں 51 ہزار 744 مقدمات، اسلام آباد ہائیکورٹ میں 17 ہزار 104، لاہور ہائیکورٹ میں 1 لاکھ 79 ہزار 425، سندھ ہائیکورٹ میں 85 ہزار 781 مقدمات زیر التوا ہیں۔

اسی طرح بلوچستان ہائیکورٹ میں بھی 4 ہزار 471 جبکہ پشاور ہائیکورٹ میں 41 ہزار 911 مقدمات زیر التوا ہیں۔ کیا مقدمات کی سماعت اعلیٰ عدالتوں کے فرائض میں شامل نہیں تھا؟

جب عمران خان اسلام آباد کی کسی مقامی عدالت، اسلام آباد ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ پہنچتے ہیں تو ساتھ ہی ججز کے ٹکرز میڈیا چینلز پر چلنا شروع ہوجاتے ہیں۔ فلاں جج ہائیکورٹ پہنچ گئے۔

کیا اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ریاست اپنے عوام کو ان کے بنیادی انسانی حقوق تک رسائی یقینی بنا رہی ہے؟ اگر ہاں تو عدالتوں میں اتنے زیادہ مقدمات دائر اور پھر زیر التوا کیسے ہوئے؟

کتنے ہی مقدمات ہمارے ملک کے گلی کوچوں میں چپے چپے پر پھیلے ہوئے بے شمار تھانوں میں درج ہیں اور کتنے ہی ایسے جرائم ہیں جو ہو تو جاتے ہیں، لیکن کوئی شخص بدنامی اور کوئی کسی اور خوف کے باعث اپنی شکایت تک درج نہیں کرواتا۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ہماری عدلیہ اور نظامِ قانون و انصاف غفلت کی نیند سے جاگے اور عوام کو ان کے بنیادی انسانی حقوق فراہم کیے جائیں۔ خدارا عوام کو مجرموں کے رحم و کرم پر نہ چھوڑا جائے۔

Related Posts