پاکستان کے ہمسایہ ملک چین کا مؤقف روس یوکرین جنگ میں ظاہراً غیر جانبدارانہ رہا ہے کیونکہ چین کی ہمیشہ کوشش ہوتی ہے کہ اقوامِ متحدہ سمیت کسی عالمی فورم یا عالمی قوانین کی خلاف ورزی میں کوئی بیان نہ دے بلکہ قوانین کی قدر کی جائے۔ چین اور روس خلائی سائنس میں مل کر کام کر رہے ہیں تاہم مغربی ممالک کی جانب سے یہ الزام سامنے آیا ہے کہ چین اپنے ہتھیار روس کو دے کر اسے یوکرین کے خلا ف طاقتور بنانا چاہتا ہے۔
عالمی محاذ پر چین نے ہمیشہ ایک مضبوط سفارتی حکمتِ عملی اپنائی ہے اور اپنی خارجہ پالیسی کی بنیاد پر ہی مختلف بیانات جاری کیے ہیں۔ چین زیادہ تر اپنی خارجہ پالیسی کے اصولوں پر ہی چلتا ہے۔ جہاں تک تعاون کا تعلق ہے تو چین عسکری اور معاشی دونوں محاذوں پر روس کی مدد میں مصروف ہے۔ چین نے گزشتہ برس 177 ارب ڈالرز کا معاہدہ بھی کیا ۔کئی اعتبار سے یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ چین نے خطے میں روس کو کئی میدانوں میں پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
اپنی ٹیکنالوجی، عسکری مہارت اور معاشی و سفارتی اثر و رسوخ سمیت مختلف میدانوں میں چین کی روس پر برتری ثابت ہوتی نظر آرہی ہے۔ ایک طرف تو چین روس کی خلاء میں اور معاشی محاذوں پر مدد کررہا ہے جبکہ دوسری جانب جب اقوامِ متحدہ میں گفت و شنید ہوئی تو چین نے بیان جاری کردیا کہ ہم روس یوکرین تنازعے میں کسی بھی فریق کی طرف نہیں ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے چارٹر کا احترام اور تمام قراردادوں پر عمل ہونا چاہئے اور چین کا یہ بیان بے حد متوازن قرار دیا جاسکتا ہے۔
بنیادی طور پر چین روس کی مدد میں مصروف ہے اور چاہے وہ زمینی راستوں کے ذریعے امداد ہو، فضائی امداد ہو یا پھر باہمی تعاون کا کوئی اور معاملہ، شنگھائی تعاون تنظیم کے پلیٹ فارم تلے چین اپنا علاقائی اثر رسوخ بڑھاتا ہوا نظر آتا ہے۔ رو س اور چین دونوں ہی شنگھائی تعاون تنظیم کے مضبوط رکن اور خطے کے ممالک سے رابطے میں رہتے ہیں اور تعاون بھی کرتے ہیں۔ اس بلاک میں 2 بڑے ممبران میں روس اور چین ہی شامل ہیں جبکہ تیسرے اہم ملک کے طورپر بھارت کو لیا جاسکتا ہے تاہم اس پر زیادہ ممالک انحصار نہیں کرسکتے۔
دراصل بھارت امریکا کے ساتھ ایک دفاعی معاہدے کا حصہ بن چکا ہے چاہے وہ گجرات میں نیول بیس ہو یا پھر عسکری مصنوعات کی تخلیق کا معاملہ ہو۔ گجرات نیول بیس میں بہت سی ایسی سرگرمیاں بھی ہورہی ہیں جن پر چین کو سنگین تحفظات ہیں ۔بھارت کھل کر کمرشل اور عسکری محاذپر امریکا کا حلیف بن چکا ہے جسے امریکا چین کا خطے پر اثر رسوخ محدود کرنے کی اپنی پالیسی پر عملدرآمد کے طور پر دیکھ رہا ہے چاہے ہم سی پیک کی بات کریں یا بھارت کے پاکستان اور چین کے ساتھ تعلقات کی، بھارت کی ہٹ دھرمی سے ہر بات واضح ہوجاتی ہے۔
جہاں سی پیک کا ذکر آتا ہے وہاں پاکستان کا ذکر کیے بغیر بات مکمل نہیں کی جاسکتی۔ پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبہ ہو یا بی آر آئی ممالک کا معاملہ، بھارت کی امریکا نواز پالیسی عیاں ہوجاتی ہے۔ پاکستان اپنی اسٹرٹیجک پوزیشن کے باعث امریکا، روس اور بھارت سمیت تمام اہم ممالک کیلئے ایک مرکزی کردار رکھتا ہے۔
یہاں چین کی خارجہ پالیسی کا اہم نکتہ بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ چین کسی بھی صورت کوئی ایسا مؤقف عالمی برادری کے سامنے نہیں رکھنا چاہتا جو اقوامِ متحدہ کے چارٹر میں درج اصولوں کے خلاف ہو۔اسے راقم الحروف چین کی خارجہ پالیسی کی خوبصورتی قرار دیتا ہے۔ چارٹر کی خلاف ورزی نہ کرکے چین دیگر ممالک کے اقتدارِ اعلیٰ کے خلاف بھی نہیں جاتا اور اس کا مکمل احترام کرتا ہے۔
ایک بار جب اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایک قرارداد منظور ہورہی تھی تو چین نے روس کا نام لیے بغیر کہا کہ اگر کسی ملک کی قومی سلامتی پر ضرب پڑ رہی ہے تو اس ملک کو اپنا دفاع کرنے کا حق حاصل ہے، اس طرح چین نے یہ اشارہ بھی دے دیا کہ روس کا یوکرین کے خلاف جو فوجی آپریشن ہے جسے امریکا اوراتحادی ممالک سمیت یورپی یونین کے اراکین جنگ قرار دیتے ہیں، وہ اپنی جگہ بالکل درست ہے کیونکہ روس نے واضح کیا ہے کہ اسے مذکورہ فوجی آپریشن اپنی قومی سلامتی کو درپیش خطرات کے باعث شرو ع کرنا پڑا۔ چونکہ اگر یوکرین نیٹو کا رکن بن جاتا تو ایسی صورت میں مغربی ممالک کے ہتھیار اور سازوسامان روس کی دہلیز پر نصب کردئیے جاتے۔ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ 1992ء میں روس کو یہ یقین دلایا گیا تھا کہ روس کے گردونواح کے ممالک کو نیٹو کا حصہ نہیں بنایا جائے گا ۔
یہی وجہ ہے کہ اب امریکا چین کے خلاف مزید معاندانہ اور تنقید پر مبنی رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ روس اور چین کے آپس کے تعلقات بے حد مضبوط ہیں جو معاشی معاملات کے ساتھ ساتھ عسکری تجارت و خلا ء میں عسکری تعاون تک اور اس کے علاوہ بھی دیگر وسیع معاملات پر محیط ہیں۔ ابھرتے ہوئے بین الاقوامی منظر نامے کے سبب کچھ یوں لگتا ہے کہ چین روس پر سبقت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ خطے میں طاقتور ترین ملک بن کر نمودار ہونے والا ہے۔
ایسے میں پاکستان چین کے ساتھ مضبوط و مربوط تعاون کی بنیاد پر اپنے کارڈز کو نہایت خوش اسلوبی سے کھیلنا چاہئے تاکہ مستقبل میں پاکستان اس سے استفادہ حاصل کرسکے اور بڑی طاقتوں کے درمیان چپقلش کے نقصان سے بچ بھی سکے۔