ایک کے بعد دوسرا، اور دوسرے کے بعد تیسرا سیاسی بلنڈر کرنے والے پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کا شوقِ بلنڈری تمام ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ اتنا تو انہیں بھی سمجھ آرہا ہوگا کہ ان کا ہر وار صرف خالی نہیں جا رہا بلکہ الٹا پی ٹی آئی کو ہی سیاسی نقصان پہنچا رہا ہے۔ لھذا انہیں یہ سلسلہ ترک کرکے کچھ دن سکون کے گزارنے چاہئیں۔ مگر حرص تو لاعلاج ہے۔ عقل پر ایسے پردے پڑ گئے ہیں کہ اتنی سی بات بھی سمجھ نہیں آرہی کہ ہر شخص پارٹی وابستگی نہیں رکھتا۔ ہر ملک میں اکثریت ان لوگوں کی ہوتی ہے جو غیر وابستہ ہوتے ہیں۔ کسی بھی تحریکی یا انتخابی کامیابی میں کلیدی رول انہی کا ہوتا ہے۔
ایسے لوگ سیاسی جماعتوں کی حکومتی کار کردگی یا کسی بھی ایشو پر ان کے موقف کی قوت کی بنیاد پر اپنا وزن ان کے پلڑے میں ڈالتے ہیں۔ عمران خان کی حماقت کی حد کو پہنچی ہوئی پھرتیاں صرف ان غیر وابستہ افراد کے بھی ان سے لاتعلق رہنے کا باعث نہیں بن رہی ہیں بلکہ خود بی ٹی آئی کے ورکرز کی ایک بڑی تعداد بھی اب ان سے کنارہ کش ہوتی چلی جا رہی ہے۔
ہم سوشل میڈیا پر دیکھ سکتے ہیں جہاں ان کا دفاع کرنے والے اب بہت ہی کم رہ گئے ہیں۔ صرف ایک سال قبل صورتحال یہ تھی کہ اگر فیس بک یا ٹویٹر پر کوئی پی ٹی آئی سے متعلق کچھ لکھ دیتا تو درجنوں کے حساب سے یوتھیے ڈیفنڈ کرنے پہنچ جاتے تھے۔ خدا گواہ ہے کہ ہمارے فیس بک پیج پر ہفتوں بعد دو افراد ایسے دیکھے جو عمران خان کے دفاع میں بیہودہ زبان استعمال کرنے آئے۔ سوال یہ ہے کہ ان کے ورکرز کیوں ساتھ چھوڑتے جا رہے ہیں ؟
جواب یہ ہے کہ ان کے لئے پے درپے سیاسی ناکامیوں کا دفاع اب ممکن ہی نہیں رہا۔ آپ ورکرز کو غلاموں کی طرح مسلسل استعمال نہیں کر سکتے۔ اور ایسی صورت میں تو بالکل ہی نہیں کرسکتے جب مسلسل سیاسی ناکامیوں کا بھی سامنا ہو۔ اس حوالے سے ورکرز کو طعنوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو نفسیاتی طور پر ان کی ہمت توڑنے کے لئے کافی ہوتا ہے۔
دنیا کا ہر سیاسی لیڈر اس بات کا شعور رکھتا ہے کہ ورکرز کو موبلائز رکھنے میں قدم بقدم ملنے والی سیاسی کامیابیاں ہی سب سے اہم رول ادا کرتی ہیں۔ ہر کامیابی ان میں ایک نیا جوش اور ولولہ بھرتی ہے۔ مزید آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتی ہے۔ تحریک کے دوران یہ احساس انہیں تازہ دم رکھتا ہے کہ ان کی محنت رائیگاں نہیں جا رہی۔ وہ دن بدن اپنی منزل سے قریب ہو رہے ہیں۔
لیکن جب بھی سیاسی لیڈرز یہ دیکھیں کہ بڑی کامیابی سے قبل قدم بقدم چھوٹی چھوٹی کامیابیاں نہیں مل رہیں تو وہ قدم روک کر اس موقع کا انتظار کرتے ہیں جب رائے عامہ حکومت کی اپنی پالیسیوں پر اس سے بدظن ہونا شروع ہوجائے۔ یہ وہ موقع ہوتا ہے جب لوگ خود بخود اپنی توجہ اپوزیشن کی جانب موڑ لیتے ہیں۔ سو جب ایسے موقع پر اپوزیشن رہنماء میدان میں اترتا ہے تو اسے عوامی سپورٹ میسر آنے میں مشکل پیش نہیں آتی۔
ہم سب جانتے ہیں کہ اپنی حکومت کے خاتمے پر عمران خان جب سڑکوں پر آئے تھے تو ان کا ہدف یہ تھا کہ کسی طرح جنرل باجوہ کی ریٹائرمنٹ سے قبل انتخابات کھرے کروا لئے جائیں۔ ان کا خیال تھا کہ ایسی صورت میں دو مقدس اداروں میں بیٹھے ان کے طاقتور “ورکرز” ان کی 2018ء جیسی جیت ایک بار پھر یقینی بنا دیں گے۔ جنرل باجوہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد جو راز کھلے ہیں ان سے واضح ہے کہ خان صاحب کا یہ خیال غلط نہ تھا۔ دونوں مقدس اداروں میں بیٹھے طاقتور لوگ اس کے لئے تیار بیٹھے تھے۔
حتی کہ جنرل باجوہ بھی ان کی سہولت کاری کر رہے تھے۔ مگر ان نامساعد حالات میں بھی پی ڈی ایم کی حکومت نے نہ صرف یہ کہ سڑکوں پر عمران خان کو مسلسل ناکامی سے دوچار کیا بلکہ حکومت پس پردہ طاقتوروں کو بھی بیک فٹ پر رکھنے میں کامیاب رہی۔ صرف یہی نہیں بلکہ جب نومبر آیا تو جنرل باجوہ کا وہ آخری وار بھی حکومت نے ناکام بنا دیا جس کے ذریعے وہ جنرل شمشاد کو آرمی چیف بنوانے کی کوشش کر رہے تھے۔
آج افواج پاکستان کی کمان انہی جنرل عاصم منیر کے پاس ہے جنہیں کبھی عمران خان اور ان کے ٹولے نے آئی ایس آئی سے نکلوایا تھا۔ اور ملکی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ ایک سابق آرمی چیف ریٹائرڈ ہوتے ہی بے شرموں کی طرح صحافیوں کی مدد سے صفائیاں دیتا پھر رہا ہے۔
اب اسے پی ڈی ایم کی کامیابی نہیں تو اور کیا کہا جائے گا کہ پراجیکٹ عمران خان کے بڑے آپس میں ہی گتھم گتھا ہیں۔ اس پروجیکٹ کے سب سے بڑے سرخیل تو دو ہی تھے۔ سڑک پر عمران خان اور پردوں کے پیچھے جنرل باجوہ۔ اور یہ دونوں ہی ایک دوسرے سے الجھے نظر آرہے ہیں۔
عمران خان کو جنرل باجوہ پر غصہ اس بات کا ہے کہ اپریل سے نومبر 2022ء کے دوران موقع کیوں ضائع کیا ؟ جنرل باجوہ کہہ نہیں پا رہے مگر ان کا جوابی موقف یہی ہوگا کہ آپ نے سڑکوں پر کونسی کامیابی حاصل کی جسے بنیاد بنا کر ہم حکومت کو چلتا کرتے ؟ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ ناکامی کے اصل ذمہ دار کود عمران خان ہی ہیں۔
پی ٹی آئی کا المیہ صرف یہ نہیں کہ یہ 29 نومبر 2022ء سے قبل کے عرصے میں بھی سیاسی ناکامیوں سے دوچار ہوئی بلکہ یہ اس المیہ تا دم تحریر پورے تسلسل سے جاری ہے۔ جیل بھرو تحریک کا حال ایسا شرمناک ہے کہ خود پی ٹی آئی کے حامی سیاسی تجزیہ کاروں نے بھی انگلیاں دانتوں میں دبا ہی نہیں رکھیں بلکہ چبا دالی ہیں۔ ان کا کل سرمایہ تکبر تو یہی ہے کہ خان بڑا پاپولر ہے۔ اور جیل بھرو تحریک میں اس پاپولرٹی کا یہ حال سامنے آیا ہے کہ لاہور، راولپنڈی اور پشاور سے کل ملا کر 83 افراد نے گرفتاریاں دی ہیں۔ اور حد یہ ہے کہ شاہ محمود قریشی کا برخوردار عدالتوں میں ان کی رہائی کی بھیک مانگتا نظر آرہا ہے۔
اعظم سواتی فرما رہے ہیں کہ میں تو شاہ محمود قریشی سے ملنے آیا تھا حکومت نے گرفتار کر لیا۔ مجموعی طور پر صورت حال یہ ہے کہ جیل بھرو تحریک اب ضمانت بھرو تحریک میں بدلنے لگی ہے۔ وہی ضمانت جس کا انتظام ان سب میں سے سب سے بڑے یعنی عمران خان نے گرفتاری سے قبل ہی اپنے لئے کر لیا تھا۔
اس شرمساری کا بنیادی سبب کیا بنا ؟ انہیں اسمبلیاں توڑنے کا بہت شوق تھا۔ شوق پورا تو ہوگیا مگر گلے پڑ گیا۔ صرف عمران خان کے ہی گلے نہیں پڑا بلکہ اب تو ان کے بھی گلے پڑ گیا ہے جو چوغے انصاف کے پہنتے ہیں اور خدمت تحریک انصاف کی کرتے ہیں۔
انہوں نے جتنا پھیلنا تھا پھیل لئے۔ اب آڈیوز تو ان کی بھی سامنے آنا شروع ہوگئی ہیں جبکہ ویڈیوز بھی پائپ لائن میں پڑی ہیں۔ اگر اپنا چلن درست نہ کیا گیا تو بہت جلد قوم بچشم خود دیکھے گی کہ “چوغے کے پیچھے کیا ہے ؟”