قائدِ اعظم محمد علی جناح کا اس قوم پر احسانِ عظیم ہے کہ انہوں نے آزادی سے محروم برصغیر کے مسلمانوں کو ایک آزاد ملک عطا کرنے کیلئے زبردست اور ولولہ انگیز جدوجہد کی، طویل جدوجہد کے نتیجے میں پاکستان معرضِ وجود میں آیا۔
مملکتِ خداداد پاکستان میں انصاف کے نظام کو مضبوط کرنا ملک کے گورنر جنرل بانئ پاکستان قائد اعظم کی اوّلین ترجیح تھی، تاہم ملک کے قیام کے بعد صرف 1 سال تک ملک و قوم کی رہنمائی کرنے کے بعد بابائے قوم اِس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قیام کا مقصد مسلمانوں کو ایک ایسا قطعۂ زمین فراہم کرنا تھا جہاں وہ اسلام کے اصولوں کے مطابق آزادانہ طور پر اپنی زندگیاں گزار سکیں اور اس کیلئے جمہوری نظام کا انتخاب کیا گیا، یعنی عوام اپنے حکمرانوں کا انتخاب ووٹ کے ذریعے کرنے لگے۔
جمہوریت میں احتساب ایک لازمی امر ہے، تاہم ملک بھر میں کبھی انصاف یا احتساب کو پنپنے نہیں دیا گیا۔ غریب اور متوسط طبقے کے حقوق ہر دور میں پامال ہوئے اور جرائم کی سزا ہمیشہ پسماندہ افراد کو ملی۔ امیروں کو شاذ و نادر ہی پاکستان کا نظامِ انصاف سزا دے سکا۔
اس کی تازہ ترین مثال بلوچستان میں ایک شخص کے تمام اہلِ خانہ کا قتل ہے۔ اسی طرح چیئرمین نیب کا استعفیٰ بھی اس کی تازہ ترین مثال قرار دی جاسکتی ہے۔ مستعفی سربراہ نیب آفتاب سلطان نے کچھ ایسے اشارے ضرور دئیے ہیں کہ ان پر دباؤ ڈالا جارہا تھا۔
سندھ میں کاروکاری ہو، پنجاب میں چودھریوں کا راج یا پھر خیبر پختونخوا میں جرائم کی بھرمار، ملک میں ظلم و ستم کا سلسلہ تھما نہیں بلکہ ہر گزرتے روز کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔ ایک ظلم سے انصاف کیلئے سالہا سال بیت جاتے ہیں اور اس دوران سیکڑوں مزید ظلم کی داستانیں رقم ہوجایا کرتی ہیں۔
قومی احتساب بیورو کو موجودہ شہباز شریف حکومت نے نیب آرڈیننس لا کر امیر سیاستدانوں کے گھر کی باندی بلکہ اگر زیادہ مناسب الفاظ سے یاد کیا جائے تو پیروں کی جوتی بنا دیا ہے، یہ کہاں کی قانون سازی ہے کہ اس سے فائدہ خود قانون سازوں کو پہنچا اور غریب کو سوال تک کا حق نہیں؟
قانون سازی اپنی مرضی سے قواعد و ضوابط بنا کر عوام پر لاگو کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر اسمبلیوں میں بیٹھنے والے اراکین کیلئے یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ وہ اس مزدور کے بارے میں بھی سوچیں جس کی محنت کی جمع پونجی اور خون پسینے کی کمائی ٹیکسوں کی نذر ہوجاتی ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ احتساب کے اداروں اور ان افسران کو طاقتور کیا جائے جو انصاف کی مسندوں پر بیٹھے ہیں اور انہیں ہر قسم کے سیاسی دباؤ سے آزاد کیا جائے۔ احتساب کا نظام اتنا مضبوط ہو کہ کوئی جاگیردار یا وڈیرہ انسانی حقوق کی پامالی کی جرأت نہ کرسکے۔