سابق صدرِ مملکت جنرل (ر) پرویز مشرف دبئی میں طویل عرصے علالت کے بعد دورانِ علاج انتقال کر گئے ہیں۔ ان کی عمر 79 سال تھی جبکہ سابق آرمی چیف کے دورِ حکومت کو ہمیشہ یاد کیا جائے گا۔
جنرل (ر) پرویز مشرف کے انتقال پر معروف سیاسی و سماجی شخصیات نے افسوس کا اظہار کیا ہے۔ آئیے جنرل (ر) مشرف کے دورِ حکومت کے کارناموں سمیت ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہیں۔
عمران خان نے ضمنی انتخابات لڑنے پر یو ٹرن کیوں لیا؟
جنرل (ر) مشرف پیدائش سے وفات تک
مختصراً یہ جاننا ضروری ہے کہ جنرل (ر) پرویز مشرف بھارت کے شہر دہلی میں 11 اگست 1943 کو پیدا ہوئے۔ 1998 میں سابق وزیر اعظم نواز شریف نے جنرل (ر) مشرف کو آرمی چیف مقرر کیا۔
آگے چل کر 12 اکتوبر 1999 کو جنرل (ر) مشرف وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کا تختہ الٹ کر چیف ایگزیکٹو آف پاکستان بن گئے۔ 20 جون 2001 کو جنرل مشرف نے صدرِ پاکستان کی حیثیت سے حلف بھی اٹھا لیا۔
دنیا بھر کے سیاسی و معاشی منظرنامے پر اثر انداز ہونے والا واقعہ جس نے بالخصوص اسلامی دنیا کو بے حد متاثر کیا، نائن الیون تھا جس کے بعد جنرل (ر) مشرف نے امریکا کی پیشکش قبول کی۔
نائن الیون سے مراد دہشت گردی کا وہ واقعہ ہے جب مبینہ طور پر القاعدہ نامی جنگجو تنظیم کی جانب سے امریکا کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر دہشت گردی ہوئی جس کے بعد امریکا نے دہشت گردی کے خلاف جنگ چھیڑ دی۔
پاکستان کو اس جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی کے کردار کی پیشکش ہوئی اور جنرل (ر) پرویز مشرف نے امریکا کی یہ پیشکش قبول کرتے ہوئے افغانستان کے محاذ پر پاکستان کی سفارتکاری کو یکسر تبدیل کردیا۔
دوسمبر 2003 کی 14 اور 25 تاریخ کو جنرل (ر) پرویز مشرف پر 2 قاتلانہ حملے ہوئے جن میں جنرل (ر) مشرف بال بال بچ گئے۔ اکتوبر 2007 میں جنرل مشرف نے ملکی آئین معطل کرکے ملک بھر میں ایمرجنسی نافذ کردی۔
یہی وہ اقدام تھا جس پر آگے چل کر جنرل (ر) مشرف کو پھانسی کی سزا سنائی گئی جس پر آئی ایس پی آر نے افسوس، تشویش اور غم و غصے کا اظہار بھی کیا، تاہم یہ ان واقعات کی ٹائم لائن سے کافی آگے کی بات ہے جو جنرل مشرف کے دور میں ہوئے۔
اگست 2008 کی 18 تاریخ کو جنرل (ر) مشرف نے صدرِ پاکستان کی حیثیت سے استعفیٰ دے دیا۔ 4 سالہ خود ساختہ جلا وطنی کے بعد جنرل مشرف 19 اپریل 2013 کو وطن واپس لوٹ آئے تھے۔
مارچ 2014 کی 31 تاریخ کو جنرل (ر) پرویز مشرف کو آئین معطل کرنے کی پاداش میں پھانسی کی سزا سنائی گئی اور 20 اگست 2016 کو جنرل (ر) مشرف کو اسلام آباد میں ان کے گھر پر نظر بند بھی کیا گیا تھا۔
مشرف دور کے اہم اقدامات
سب سے بڑا اقدام جو جنرل (ر) پرویز مشرف نے بطور سربراہِ مملکت اٹھایا، وہ 2001 کے نائن الیون واقعے کے بعد امریکا کی حمایت تھا۔ جس پر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ اسی اقدام کے نتیجے میں پاکستان کو طویل عرصے تک افغانستان سے دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑا۔
بلاشبہ جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں متعدد معاشی و اقتصادی اصلاحات نافذ کی گئیں جس سے ملکی معیشت استحکام کی طرف لوٹی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو بھی پاکستان کی طرف راغب کیا گیا۔
مذہبی انتہا پسندی کے خلاف اقدامات اٹھائے گئے جن میں لال مسجد آپریشن بھی شامل تھا جس پر جنرل (ر) پرویز مشرف کو اچھی خاصی تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ قبائلی علاقہ جات میں کیا جانے والا عسکری آپریشن بھی اس کی ایک اہم مثال ہے۔
مسئلۂ کشمیر پر بات چیت کو فروغ دینا بھی جنرل (ر) مشرف کے اہم کارناموں میں شامل سمجھا جاتا ہے، اس معاملے میں عوام کو اس حد تک یقین ہو گیا تھا کہ جنرل پرویز مشرف مسئلۂ کشمیر کو اگر مکمل طور پر حل نہ کرسکے تو اس ضمن میں اہم ترین پیشرفت ضرور ممکن ہوجائے گی۔
سیاسی اور آئینی اصلاحات بھی جنرل پرویز مشرف کے دور کا اہم کارنامہ رہا جس میں قومی سلامتی کونسل کا قیام عمل میں لانا اور صوبوں کو اختیارات کی منتقلی شامل ہے۔
سن 2002 میں جنرل (ر) مشرف نے ایک ریفرنڈم منعقد کروایا جس میں عوام نے انہیں مبینہ طور پر اجازت دی کہ صدر اور آرمی چیف کے طور پر عوام کی خدمت مزید جاری رکھیں، جسے متنازعہ سمجھا جاتا ہے۔
میڈیا کو آزادی دینا بھی جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور کا اہم اقدام ہے جس کے دوران مختلف ٹی وی چینلز کی بھرمار ہوئی اور میڈیا نے آہستہ آہستہ ریاست کے چوتھے ستون کی جگہ سنبھال لی۔
ملک کی نمائندگی
مختلف ٹی وی پروگرامز میں پاک فوج اور حکومتِ پاکستان کا دفاع کرنے میں جنرل (ر) پرویز مشرف کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ انہوں نے متعدد مواقع پر بھارت میں بیٹھ کر پاکستان کے مؤقف کی ایسی ترجمانی کی جسے آج بھی سراہا جاتا ہے۔
ملک بھر کی سیاسی و سماجی شخصیات جنرل (ر) مشرف کے انتقال پر افسوس کا اظہار کر رہی ہیں۔ سابق صدر کے انتقال سے جو خلا پیدا ہوا ہے، شاید اسے طویل عرصے تک پر نہیں کیا جاسکے گا۔