یوکرینی شہریوں کے خلاف روس کے مبینہ مظالم کے بعد، یورپی پارلیمنٹ کے اراکین (MEPs) نے اسٹراسبرگ میں اپنے اجلاس میں روس کو “دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والے ریاست” قرار دے دیا ہے۔
یورپی پارلیمنٹ نے روس کی “یوکرین کے خلاف جارحیت کی وحشیانہ جنگ” میں تازہ ترین پیش رفت پر ایک قرارداد منظور کی۔ MEPs نے روشنی ڈالی کہ “روسی افواج اور ان کے پراکسیز کی طرف سے یوکرین میں شہریوں کے خلاف جان بوجھ کر کیے جانے والے حملے اور مظالم، شہری بنیادی ڈھانچے کی تباہی اور بین الاقوامی اور انسانی قانون کی دیگر سنگین خلاف ورزیاں دہشت گردی کی کارروائیوں کے مترادف ہیں اور جنگی جرائم کا حصہ ہیں۔ اس کی روشنی میں وہ روس کو دہشت گردی کے ریاستی سرپرست اور دہشت گردی کے ذرائع استعمال کرنے والی ریاست قرار دیتے ہیں۔
در اصل یہ روس کی جیو پولیٹیکل پوزیشننگ، خیر سگالی اور اقتصادی ترقی کو نقصان پہنچانے کے لیے اس کے خلاف ایک اور سخت قدم ہے۔ روس پر امریکہ کی حالیہ اقتصادی پابندیوں کے بعد اتحادیوں نے روسی حکومت کے 50 بلین ڈالر سے زائد کے اثاثے منجمد کر دیے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان اثاثوں کو “جنگ کے متاثرین کو معاوضہ اور بنیادی ڈھانچے کی تعمیر نو” کے لیے “استعمال” کیا جائے گا۔
امریکہ اور روس کا تصادم محض دونوں ملکوں کے درمیان ’’سرد جنگ‘‘ نہیں ہے۔ یہ سرمایہ داری اور کمیونزم کی لڑائی ہے۔ 1990 کی دہائی کے اوائل میں کمیونسٹ بلاک کے ٹوٹنے سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو حوصلہ ملا کہ وہ آخر کار کمیونسٹ ممالک کو “ختم” کرنے کے لیے اپنی جنگی حکمت عملیوں کو پھیلاتے رہیں۔
آزاد جیو پولیٹیکل مبصرین کا خیال ہے کہ یوکرین کے کریملن جھکاؤ والے حصوں میں یوکرینی حکام کی بڑھتی ہوئی ہلچل اور ’روس کے دوستوں‘ کے خلاف بربریت اور روسی فیڈریشن کے خلاف جارحانہ اقدامات جنگ کا باعث بنے۔ روسی حکومت اپنے “دوستوں” کے خلاف انتقامی اور سفاکانہ کارروائیوں کو ختم کرنے کے لیے اسے “خصوصی فوجی آپریشن” قرار دیتی ہے۔
یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلینسکی مذاکرات کے لیے آنے والے تھے لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ امریکہ اور یورپی یونین کے رکن ممالک نے کبھی یوکرین میں امن کی خواہش نہیں کی لیکن اس کی نیٹو کی رکنیت کیلئے مغربی اتحاد بڑا پر جوش ہے، جو دراصل روس کے جغرافیائی سیاسی اور اقتصادی پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ایک سیاسی چال ہے اور یہی چال اس علاقے میں جنگ کا باعث بنی ہوئی ہے۔
یوکرین کی جنگ میں سیکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جس کا ایندھن امریکہ اور نیٹو کی فوجی کھیپوں سے چلایا جاتا ہے۔ اس سے قبل یوکرینی انقلاب میں ہزاروں جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔ یوکرینی فوجیوں کی بہت سی ویڈیوز سامنے آئی ہیں جن میں وہ غیر مسلح روسی فوجیوں کو مارتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔ روس یوکرین کی جنگ میں مصروف امریکی اور نیٹو کمانڈوز کی فوٹیج اور ہلاک ہونے والوں کی لاشیں بھی سامنے لایا ہے، مگر روسی حکام کی طرف سے فراہم کردہ تمام ثبوتوں کے باوجود امریکہ کے سامنے بے بس اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
دریں اثنا، یورپی یونین کی پارلیمنٹ نے قرارداد منظور کی جس کے حق میں 494، مخالفت میں 58 ووٹ پڑے جبکہ 44 نے ووٹ نہیں دیے۔ ایسا لگتا ہے کہ یورپی یونین کسی بھی ریاست کو ‘دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والی’ قرار دینے کے لیے قانونی فریم ورک کے بغیر، عجلت میں امریکی سازشی تھیوری کو ہی سب کچھ سمجھنے کی روش برقرار رکھے ہوئے ہے۔ روس کو ‘دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والی ریاست’ قرار دینے کے لیے بغیر کسی پیرامیٹرز کے فیصلہ کرنا بلاجواز ہے۔ دنیا کو طاقتور سرمایہ داروں کے ذاتی مفادات سے نہیں چلایا جا سکتا۔
اس وقت مغربی اتحاد میں شامل تمام طاقتور ریاستیں روس کو مزید تنہا کرنے کے لیے اقدامات کر رہی ہیں۔ یورپی یونین کی پارلیمنٹ نے رکن ممالک سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ یورپی یونین کے نویں پابندیوں کے پیکج پر کام مکمل کریں جس میں روس کو بین الاقوامی سطح پر اور اقوام متحدہ کے فورمز پر تنہا کرنا، روس کے ساتھ سفارتی تعلقات کو کم کرنا، اور یورپی یونین میں روسی ریاست سے وابستہ اداروں پر پابندی لگانا اور بند کرنا شامل ہے۔
یوکرین یورپی یونین کے اس اقدام پر خوشی کا اظہار کر رہا ہے۔ تاہم یوکرین کی ظاہری خوشی کے علاوہ فی الحال روس کے بارے میں یورپی پارلیمنٹ کے فیصلے کے کوئی عملی نتائج سامنے آتے نظر نہیں آتے۔ بظاہر یہ ایک “تسلی پروگرام” معلوم ہوتی ہے کہ روس کی جانب سے گیس کی سپلائی میں کمی کے بعد پورے یورپ میں سر اٹھانے والے خوراک اور توانائی کے بحران سے دوچار اپنے شہریوں کو تسلی دی جائے۔ کیا یورپی یونین کا قانونی فریم ورک روس کے عالمی مفادات کو نقصان پہنچا سکے گا؟ ایسا لگتا ہے کہ یہ پارلیمنٹ کی شیلف میں دستاویزات کے انبار میں ایک اور دستاویز کے اضافے کے سوا کچھ نہیں کرے گا۔
یورپی یونین کو اس طرح قائم کیا گیا ہے کہ اس کی ایک پارلیمنٹ ہے، لیکن اس پارلیمنٹ کے پاس کوئی حقیقی طاقت نہیں ہے۔ یہ گرجدار بیانات دینے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ خاص طور پر نام نہاد “جمہوریت” کے دشمنوں کو۔ یہ بیانات کسی بھی سطح پر کسی حقیقی کارروائی کے ضامن نہیں ہوتے۔ بہت ہوا تو یہ دھواں دھار بیانات یورپی پریس کی توجہ اپنی طرف مبذول کرا سکتے ہیں۔
یورپی یونین کی پارلیمنٹ کی قرارداد روس کا تو کچھ نہیں بگاڑ سکتی، تاہم یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ روس کو تنہا کرنے کی کوشش الٹا مغرب کے مصائب میں مزید اضافہ کرے گی۔ امریکہ جس کے اشارے پر پورا مغرب روس کے خلاف یہ تمام سخت اقدامات کر رہا ہے، کی یہ شرارت مہنگائی، خوراک اور توانائی کے بحران کو مزید بڑھاوا دے گی، جس سے یورپی یونین ناقابل تلافی نقصان سے دوچار ہوسکتی ہے۔
امریکہ کے پاس یورپی یونین کے موجودہ بحران سے نمٹنے کے لیے خاطر خواہ اضافی وسائل نہیں ہیں۔ اگر کمیونسٹ بلاک میں شامل ریاستیں یورپی یونین کی ریاستوں کے خلاف ناپسندیدہ اقدامات پر اتر آئیں اور انہوں نے سپلائی روک دی تو مغرب میں شدید معاشی کساد بازاری کا خدشہ ہے۔ دوم 300 بلین ڈالر کے روسی اثاثوں اور سونے کے ذخائر پر منہ اٹھا کر کچھ بھی کہہ دینا آسان نہیں ہے۔ یہ معاملہ سنجیدہ اقدام کی طرف گیا تو اس کے بڑے سنگین نتائج برآمد ہوں گے، جی ہاں دو عالمی جنگوں اور سرد جنگ سے کہیں زیادہ خطرناک!