پنجاب کی سیاست ہر گزرتے دن کے ساتھ نیا رخ اختیار کررہی ہے، لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے پنجاب کے وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی کی حکومت کی بحالی کے بعد اس یقین دہانی پر کہ قانونی چارہ جوئی تک اسمبلی کو تحلیل نہیں کیا جائے گا، نے تحریک انصاف کی فعال احتجاجی سیاست میں ٹھہراؤ پیدا کردیا ہے۔
اسی اثناء میں 13جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم)نے پنجاب میں آئین کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کا ایک حد انتظامی کنٹرول حاصل کرلیا ہے، وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کے ماتحت پنجاب کی حکومت اس وقت مخمصے کا شکار ہے اور انہیں سوچنے کی ضرورت ہے کہ کہاں ان سے غلطی ہوئی ہے۔
اگرچہ ایسا لگتا ہے کہ نسبتاً سیاسی سکون کا دور غالب رہے گا جب تک کہ عدالت اس معاملے پر فیصلہ نہیں کرتی ہے، ایسا لگتا ہے کہ تقسیم جاری رہے گی۔ پی ٹی آئی کو کچھ خود شناسی کرنا ہوگی، اور قوم کو اس کی ٹائم لائن پر الیکشن کرانے کے جنون سے باہر آنا ہوگا۔ اسی طرح، وفاقی حکومت کو انتقامی سیاست سے وقفہ لینے اور پی ٹی آئی کے سربراہ کو گھیرنے کی اپنی تمام تر کوششیں بند کرنے کی ضرورت ہے، اور گرتی ہوئی معیشت اور سماجی انحطاط جیسے مزید اہم مسائل پر توجہ مرکوز کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
پنجاب کا وقتی آئینی بحران یہ ثابت کررہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اس وقت خاموش تماشائی کا کردار ادا کررہی ہے، ”انتظار اور دیکھو“کا پیغام اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے آرہا ہے۔