پاکستان میں سیاستدانوں پر حملے کوئی نئی بات نہیں، ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان سے لے کر بے نظیر بھٹو تک سیاستدانوں پر قاتلانہ حملوں کی ایک وسیع تاریخ ہے۔ ملک کے مرکزی دھارے کی سیاسی قیادت پر تازہ ترین حملے میں، پنجاب کے وزیر آباد میں ایک مسلح شخص نے سابق وزیر اعظم عمران خان کو لے جانے والے ٹرک پر فائرنگ کی، جس سے وہ ٹانگ میں گولی لگنے کے باعث زخمی ہو گئے اور ان کا ایک کارکن شہید ہوگیا، پی ٹی آئی اور پولیس کے مطابق دیگر 7افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔
مسلح شخص کو کو فوری طور پر جائے وقوعہ سے گرفتار کر لیا گیا، اور پولیس نے بعد میں اس کی زیر حراست ویڈیو جاری کی، جس میں ملزم نے مبینہ طور پر فائرنگ کا اعتراف کیا اور کہا کہ اس نے اکیلے ہی یہ سب کیا ہے، تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ انہوں نے کن حالات میں اپنا بیان دیا ہے۔ملزم نے کہا کہ میرا ہدف صرف عمران خان تھا۔
وفاقی حکومت کی جانب سے با ربار کہا جارہا تھا کہ مارچ شروع ہونے سے پہلے ہی تحریک انصاف کے جلسے پر حملے کا خطرہ موجودتھا۔ حکومت کی اتحادی جماعتوں، صدر عارف علوی، وزیر اعظم شہباز شریف اور دیگر نے بھی واقعے کی مذمت کرتے ہوئے واقعے کی انکوائری رپورٹ طلب کر لی ہے۔
اس حملے نے اپریل میں پارلیمنٹ میں عدم اعتماد کے ووٹ کے بعد عمران خان کی برطرفی کے بعد سے پاکستان میں بڑھتے ہوئے سیاسی عدم استحکام کے بارے میں نئے خدشات کو جنم دیا۔
لیکن یہاں تو پنجاب حکومت کی جانب سے بڑے لانگ مارچ کے لیے فراہم کردہ سیکیورٹی پر سوال اٹھ رہے ہیں۔ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ عمران خان پر حملہ ہوا ہے لیکن ان پر حملہ پنجاب میں ہوا جہاں پی ٹی آئی مسلم لیگ (ق) کے ساتھ حکومت کر رہی ہے۔
پاکستان میں سیاسی بنیادوں پر ہونے والے قتل عام کی دہائیوں پرانی تاریخ ہے، جس میں بینظیر بھٹوکا قتل بھی شامل ہے جنہیں 2007ء میں شہید کیا گیا، جو کسی مسلم ملک کی جمہوری طور پر منتخب ہونے والی پہلی خاتون رہنما تھیں۔
تحریک انصاف حملے کے پیچھے وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کو مورد الزام ٹھہرا رہی ہے جبکہ حکومت تحمل سے کام لینے کا کہہ رہی ہے۔ درحقیقت وقت کی ضرورت ہے کہ انتظار کیا جائے اور بھڑکتے ہوئے بیانات دینے سے گریز کیا جائے کیونکہ بغیر تفتیش کے سخت بیانات سے صرف ملک کو نقصان ہوگا۔