جب ہم لفظ میڈیا کا ذکر کرتے ہیں تو ہمارے ذہن میں کسی ٹی وی چینل، ریڈیو یا پھر اخبار کی تصویر ابھرتی ہے اور حالاتِ حاضرہ سے ہماری واقفیت یا ناواقفیت کی بنیاد پر کچھ دھندلے یا واضح نقوش بھی جنم لیتے ہیں۔
خبر کیا ہے؟ جب کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تو اس کی اطلاع کو خبر کہتے ہیں جس میں معلومات کیلئے درکار تمام تر دستیاب مواد کی موجودگی ضروری ہے۔ نامکمل، غیر مصدقہ یا پھر کسی بھی حوالے سے مشکوک معلومات کو خبر کا نام نہیں دیا جاسکتا۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ خبر میں کون، کب، کیا، کیسے اور کیوں کا جواب ہونا چاہئے جسے آپ خبر کیلئے درکار معلومات کے حوالے سے ناظرین وسامعین کے سوالات کا نام دے سکتے ہیں، تاہم سوشل میڈیا پر جنگل کی آگ کی طرح تیزی سے پھیلنے والی خبروں نے تمام اصولوں کو فراموش کردیا۔
آج کل متعدد ٹی وی چینلز کی ویب سائٹس بلکہ براہِ راست چلنے والی خبروں میں بھی تمام سوالات کا جواب موجود نہیں ہوتا، نامکمل معلومات کو خبر کا نام دے دیا جاتا ہے اور جھوٹی خبریں تو بے حد عام ہوتی جارہی ہیں جن کا عوام کی زندگیوں پر بہت گہرا اثر ہوسکتا ہے۔
جھوٹی اطلاعات یا خبروں کو جو درحقیقت افواہیں ہوتی ہیں، جان بوجھ کر پھیلانا بعض عناصر کی جانب سے اپنے ذاتی، گروہی یا سیاسی جماعت کے مفادات کو فروغ دینے کیلئے ہوسکتا ہے جس سے آج کل تمام عوام بالخصوص سوشل میڈیا صارفین کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔
مختلف سیاسی رہنما بھی اپنے ہرکاروں کو خبریں جاری کرنے کیلئے رکھ لیتے ہیں جن کی سیاسی نابالیدگی بعض اوقات بڑے بڑے شوشے چھوڑنے کا باعث بن سکتی ہے۔ جب کوئی میڈیا نمائندہ ایسے کسی سیاسی رہنما سے پوچھتا ہے کہ کیا آپ نے یہ بیان دیا؟ تو وہ لاتعلقی کا اظہار کردیتے ہیں۔
ایسے میں میڈیا یہ کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ فلاں خبر جھوٹی نکلی یا فلاں سیاسی شخصیت نے اپنے ہی بیان سے لاتعلقی کا اظہار کردیا یا اس کی تردید کردی۔آئیے، ہم حال ہی میں سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی بعض جھوٹی خبروں کا جائزہ لیتے ہیں۔
مثال کے طور پر سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو حال ہی میں وائرل ہوئی جس میں ایک بوڑھی خاتون کو دکھاتے ہوئے دعویٰ کیا گیا کہ وہ مقتول سینئر اینکر ارشد شریف کی والدہ ہیں اور کیپشن میں “ارشد شریف کی شہادت کے بعد والدہ کا روتے ہوئے بیان” تحریر کیا گیا، بعد میں پتہ چلا کہ وہ خاتون ارشد شریف کی والدہ تھیں ہی نہیں۔
ایک خبر یہ بھی پھیلی کہ کوئٹہ میں ایک بچی پولیو ویکسین کے باعث جاں بحق ہوگئی، تاہم جب اس خبر کی تحقیق کی گئی تو پتہ چلا کہ مذکورہ بچی پولیو کی وجہ سے نہیں بلکہ نمونیا کے باعث انتقال کر گئی تھی۔ یہ بھی کہا گیا کہ نیٹ فلکس شریف خاندان کی بدعنوانی پر دستاویزی فلم نشر کرے گا، مگر یہ اطلاع جھوٹی نکلی۔
جھوٹی خبروں کی یلغار روکنے کیلئے صحافی برادری کو اپنے فرائض کی انجام دہی میں پہلے سے زیادہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا جبکہ سوشل میڈیا صارفین کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ کسی صارف کی طرف سے پھیلائی گئی افواہ اور میڈیا پر نشر مصدقہ خبر میں کیا فرق ہوتا ہے۔