معاشی ناہمواری کا عفریت

مقبول خبریں

کالمز

Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟
Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ملک بھر میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، غربت اور بے روزگاری نے بے شمار ایسے مسائل کو جنم دیا ہے جن سے غریب اور متوسط کے ساتھ ساتھ امیر طبقہ بھی پریشانیوں کا شکار ہے۔ مذکورہ مسائل میں جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح اور بدعنوانی سرِ فہرست ہیں۔

دنیا کا کوئی بھی معاشرہ اپنے حقیقی مسائل کی نشاندہی کیے بغیر اور ان سے نبرد آزما ہوئے بغیر ترقی نہیں کرسکتا اور معیشت تمام تر مسائل میں بنیادی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ اس کا تعلق انسان کے بنیادی حقوق اور ضروریات سے ہے۔

اگر کسی انسان کا جسم بھوک سے بدحال ہو تو اسے کوئی ایسا استاد اخلاقیات کا درس نہیں دے سکتا جو خود پیٹ بھر کھانا کھا کر اور سیر ہو کر طلبہ و طالبات کو تعلیم دینے کیلئے اسکول، کالج یا یونیورسٹی آیا ہو اور اکثر اوقات کوئی بات سمجھانے کیلئے مثال دینا کافی ثابت نہیں ہوتا بلکہ خود کو مثال بنانا پڑتا ہے۔

حال ہی میں عاصمہ جہانگیر کانفرنس کے دوران اراضی کے حصول اور سیاسی معیشت پر کیے گئے سیشن سے خطاب کرتے ہوئے ماہرِ معاشیات ڈاکٹر قیصر بنگالی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں بہت زیادہ معاشی ناہمواری ہے جس سے چند لوگوں کے پاس لاکھوں اور لاکھوں کے پاس چند ایکڑ زمین بھی نہیں۔

غور کیجئے تو ملک بھر میں روٹی کپڑے اور مکان کا حصول کس قدر مشکل ہوتا جارہا ہے۔ روٹی کمانے والے کے جسم پر کپڑے پورے نہیں اور جس کے پورے ہیں، وہ چھت سے محروم نظر آتا ہے۔قیصر بنگالی کا کہنا تھا کہ ریاست زمین کے حصول کیلئے سختی کرتی نظر آتی ہے اور اپنے ہی شہریوں پر جبر کیاجاتا ہے۔

جو کچھ قیصر بنگالی نے فرمایا، اس سے ایک تو یہ پتہ چلتا ہے کہ موجودہ دور میں زمین کا حصول بے حد مشکل ہے۔ زمینیں مہنگی ہیں، اپنا گھر لینا تو دور کی بات، کرائے پر گھر لینا اور اس میں رہنا بھی کسی آرٹ سے کم نہیں کیونکہ ایک شخص کی جتنی ماہانہ آمدنی ہوتی ہے، اس کا 30 سے 50 فیصد تو ماہانہ کرائے اور بجلی کے بلز میں چلاجاتا ہے۔

دوسری بات جو ہمیں قیصر بنگالی کے بیان سے پتہ چلتی ہے وہ یہ ہے کہ لاقانونیت کا حقیقی حل دینے کی بجائے حکومت عوام کے سروں سے چھت چھینتی رہی ہے جس کی مثال انسدادِ تجاوزات مہم سے لی جاسکتی ہے کہ عوام کو دھوکا دہی سے جعلی پلاٹ دے کر اس پر گھر بنوائے گئے اور پھر انہیں چھین لیا گیا۔

کتنے ہی لوگ بے گھر ہو گئے جن کا کوئی پرسانِ حال نہیں جبکہ  رواں برس آنے والے سیلاب نے تباہی کو دوچند کردیا اور اس تباہی پر قابو پانے کیلئے بیرونِ ممالک سے جو امداد آئی، اس میں بھی خوردبرد کی شکایات منظرِ عام پر آرہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ معاشی ناہمواری کے اس عفریت کا سامنا کرنے کیلئے ہم نے کیا تیاری کی ہے؟وقت نکال کر ایک بار ضرور سوچئے گا۔

Related Posts