مسجدِ نبوی ﷺ کی توہین اور واقعۂ کربلا

مقبول خبریں

کالمز

Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟
Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

رسول اکرم ﷺ کی عزت و احترام ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے۔ آج سے 2 روز قبل توہینِ مسجدِ نبوی ﷺ کا جرم ثابت ہونے پر سعودی حکومت نے 6 پاکستانیوں کو سزا سنائی۔

پاکستان کے 3 شہریوں کو 10، 10 جبکہ 3 کو 8،8 سال قید کی سزا سنادی گئی۔ مدینہ منورہ کی عدالت نے مذکورہ افراد پر نہ صرف 20 ہزار ریال فی کس جرمانہ عائد کیا بلکہ موبائل فون بھی ضبط کیے۔

یہ وہی واقعہ ہے جب مسجدِ نبوی ﷺ میں شہباز شریف اور ان کے ہمراہ وفد کے خلاف نعرے بازی ہوئی جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی تھی۔ عوام کی بڑی تعداد نے اس واقعے پر افسوس کا اظہار بھی کیا۔

اگر واقعے میں سزا پانے والے افراد کے نام دیکھئے تو ارشاد، انس، محمد سلیم، محمد افضل، خواجہ لقمان اور غلام محمد کے نام دیکھنے سے یہ انکشاف سامنے آتا ہے کہ توہینِ مسجدِ نبوی ﷺ میں ملوث یہ افراد کسی اور مذہب کے ماننے والے یا بت پرست نہیں بلکہ مسلمان ہیں۔

غور کیجئے تو محرم الحرام کا مقدس مہینہ اور نیا اسلامی سال شروع ہوچکا ہے۔ محرم کی 10 تاریخ کو ہر سال مسلمان عاشورۂ محرم کی یاد مناتے ہیں جب حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے اہلِ خانہ اور 70 سے زائد جانثاروں سمیت اپنی جان اسلام کے نام پر نچھاور کردی۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ وہ تھے جن کے گھر سے اسلام نے جنم لے کر سرزمینِ عرب میں پھلنا پھولنا شروع کیا۔ آپ رسول اللہ ﷺ کے نواسے اور حضرت علی کرم اللہ وجہ کے صاحبزادے تھے۔ آپ کا جرم صرف اتنا تھا کہ ایک ظالم بادشاہ یعنی یزید کو امیر المؤمنین ماننے سے انکار کردیا۔

دوسری جانب یزید کی فوج میں شامل افراد خود کو مسلمان کہتے تھے اور خلیفۂ وقت کو امیر المؤمنین منوانے کیلئے حضرت امام حسین پر دباؤ ڈالنے اور انہیں قتل و غارت کی دھمکیاں دے کر اپنے مطالبات تسلیم کروانے آئے تھے، تاہم یہ معرکہ حضرت حسین ابنِ علی رضی اللہ عنہ کے نام رہا۔

یہاں سمجھنے کی بات صرف یہ ہے کہ خود کو مسلمان کہنا اور مسلمان ہونا دو الگ الگ باتیں ہیں، بقول شاعر

یہ شہادت گہِ اُلفت میں قدم رکھنا ہے

لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا

جس طرح مسجدِ نبوی ﷺ کی توہین کوئی مسلمان برداشت نہیں کرسکتا، بالکل اسی طرح ہمیں اپنے آپ سے آج یہ سوال پوچھنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم واقعی مسلمان ہیں یا پھر ہم نے صرف اپنے نام مسلمانوں والے رکھ لیے ہیں کیونکہ واقعۂ کربلا میں دونوں جانب جو لوگ تھے، ان میں سے ایک طرف کے لوگ واقعتاً مسلمان، مومن اور اللہ کے حقیقی پیروکار تھے۔

اور دوسری جانب جو لوگ تھے، وہ خود کو مسلمان کہا کرتے تھے، کیوں؟ اس کی وجہ شاید خود انہیں بھی معلوم نہیں تھی جبکہ اسلام کے ماننے والوں کا یہ سمجھنا بے حد ضروری ہے کہ اگر وہ خود کو مسلمان کہتے اور سمجھتے ہیں تو اس کا ان کے پاس ثبوت کیا ہے۔ یہی واقعۂ کربلا کا حقیقی پیغام ہے۔

 

Related Posts