قائدِ اعظم محمد علی جناح کا شمار آج بھی برصغیر کے سچے اور بے باک لیڈر کی حیثیت سے دنیا کی عظیم ترین شخصیات میں کیا جاتا ہے جن کی ولولہ انگیز قیادت نے مسلمان قوم کو ایک الگ وطن کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے میں مدد دی۔
بابائے قوم نے ہمیشہ اپنی قوم کو نسلی تعصب اور صوبائی عصبیت سے دور رہنے کا درس دیا جبکہ آج مملکتِ خداداد پاکستان اسی نسلی تعصب اور قوم پرستی کا شکار نظر آتی ہے جسے تحریکِ آزادی کے رہنما زہرِ قاتل سمجھا کرتے تھے۔
مسلم لیگ (ن) کی سیاست پنجاب پر مرکوز ہے تو پیپلز پارٹی سندھ تک، اسی طرح پی ٹی آئی کی بات کیجئے تو یہ جماعت خیبر پختونخوا تک محدود نظرآتی ہے۔ ایم کیو ایم (پاکستان) کو مہاجروں کی نمائندہ جماعت سمجھا جاتا ہے، اور بس۔
تمام سیاسی جماعتیں قومی سطح پر ملک کی قیادت کا دعویٰ تو کرتی ہیں لیکن اندرونِ خانہ مبینہ طور پر اندھا بانٹے ریوڑیاں اور اپنوں کو دے کی مثال بنی نظر آتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ایم کیو ایم آئی تو مہاجروں کو نوکریاں ملیں گی اور اگر پی پی آئی تو سندھیوں کو۔
یہی صورتحال مسلم لیگ (ن) کی ہے جس پر پنجاب کے سرائیکی بولنے والوں کو کبھی اوپر نہ آنے دینے کا الزام لگایا جاتا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کی راہ ہموار کی جارہی ہے جس کا سیکرٹریٹ بھی قائم کردیا گیا۔
غور کیجئے تو آج کوئی شخص پاکستانی نہیں رہا، بلکہ ہم میں سے کوئی مہاجر ہے تو کوئی سندھی، کوئی پنجابی ہے تو کوئی بلوچی اور کوئی پٹھان یا ہزارے وال کا پرچم تھامے نظر آتا ہے، سبز ہلالی پرچم تھام کر پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگائیے تو پوچھا جاتا ہے، آج 14اگست ہے کیا؟؟
یاد کیجئے 16دسمبر 2014 کا وہ خون آشام دن، جب دہشت گردوں نے آرمی پبلک اسکول کو نشانہ بنایا اور ہمارے بچوں، اساتذہ اور طلبہ کو چن چن کر قتل کردیا اور پوری قوم یہ کہہ کر دہشت گردوں کے خلاف صف آراء ہوئی: بڑا دشمن بنا پھرتا ہے جو بچوں سے ڈرتا ہے۔
ہماری قوم نہ صرف دہشت گردی کے خلاف متحد ہوجاتی ہے بلکہ ہم قدرتی آفات کے موقعے پر بھی کچھ اسی قسم کے جوش و جذبے کا اظہار کرتے ہیں۔ کیا کسی کو 8 اکتوبر 2005 کا زلزلہ یاد ہے؟ نہیں تو یہی وہ قدرتی آفت تھی جس نے قوم کو ہمدردی کے اظہار کیلئے یکجا کردیا۔
ملکی فنکاروں نے بھکاری کی طرح اپنی جھولیاں پھیلا دیں تاکہ زلزلہ متاثرین کیلئے امداد جمع کی جاسکے اور پھر امریکا، برطانیہ اور سعودی عرب سمیت متعدد ممالک سے بیش بہا امداد جمع کی گئی جو پنجاب، آزاد کشمیر اور خیبر پختونخوا کے زلزلہ متاثرین کو دی گئی۔
سوال یہ ہے کہ ہر بار پاکستانی قوم متحد ہونے کیلئے کسی آسمانی آفت، زلزلے، سیلاب یا دہشت گردی کے حملے کا انتظار کیوں کرتی ہے؟ ہم اپنے معاشی مفادات، اپنے قومی مقاصد اور ملکی وقار کیلئے یکجا کیوں نہیں ہوتے؟ غور ضرور کیجئے گا۔