سندھ میں پانی کا مسئلہ سنگین ہوگیا، حل کیسے ممکن ہے؟

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

سندھ میں پانی کا مسئلہ سنگین ہوگیا، حل کیسے ممکن ہے؟
سندھ میں پانی کا مسئلہ سنگین ہوگیا، حل کیسے ممکن ہے؟

سندھ میں پانی کا بحران شدید ہوگیا ہے، دریائے سندھ خشک ہوگیا اور نہروں میں پانی نہ ہونے سے کھڑی فصلوں کا نقصان ہوگیا۔ 

ماہرین کے مطابق پاکستان میں مارچ کا مہینہ گزشتہ چھ دہائیوں میں گرم ترین رہا، جس کے بعد یہ توقع کی جارہی تھی کہ گرمی کے باعث شمالی علاقہ جات میں موجود گلیشیئر پگھلنے سے دریاؤں میں پانی کی مقدار میں اضافہ ہوگا، مگر ایسا نہیں ہوا اور ملک کے دریاؤں میں پانی کی قلت مزید بڑھ گئی۔

پانی کی قلت کی وجہ کیا ہے

وفاقی حکومت کے ادارے ارسا کے مطابق اس وقت ملک بھر میں پانی کے ذرائع دریاؤں اورڈیموں میں اوسط توقع سے مجموعی قلت 38 فیصد ہے، جس میں دریائے سندھ اور تربیلا ڈیم میں 13 فیصد، دریائے کابل میں 46 فیصد، دریائے جہلم اور منگلا ڈیم میں 44 فیصد، دریائے چناب میں 48 فیصد اور دیگر ذرائع میں یہ کمی 66 فیصد ہے۔

ماہرین کے خیال میں یہ سال خشک سالی اور برف باری کے حوالے سے بدترین رہا ہے۔ اُن کے خیال میں سندھ میں اس وقت جو زراعت ہے یہ مکمل طور پر دریائے سندھ کی مرہونِ منت ہے، یہ کوئی آج کا نہیں بلکہ کئی سو سالوں کا معاملہ ہے۔

ملک کے اکثر ماہرین کا کہنا ہے کہ مارچ، اپریل اور مئی کے آغاز میں پانی کا زیادہ انحصار برفباری پر ہوتا ہے۔ گلیشیئر پر موجود برف کا مئی کے بعد پگھلنا اور اس کا پانی دریاوں میں شامل ہونا شروع ہوتا ہے۔ مگر اب ہوا یہ کہ سردیوں میں کم بارشیں ہوئیں اور برفباری بھی ریکارڈ کم ہوئی۔ جس کی وجہ سے مارچ اور اپریل میں پانی کم رہا تھا۔‘

خیال رہے کہ دریائے سندھ اور دوسرے دریاؤں پر ڈیم تعمیر ہوچکے ہیں۔ ’ان کا قدرتی بہاؤ روک لیا گیا ہے یا متاثر ہو گیا ہے اور اس کا اثر بھی سندھ پر پڑتا ہے۔ اب پانی تقسیم کرتے ہوئے یہ نہیں سوچا جاتا کہ سندھ کو کس وقت پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔‘

پانی کی تقسیم کا طریقہ کار کیا ہے؟

صوبہ سندھ کے موسم صوبہ پنجاب سے ایک ماہ آگے ہیں یعنی سندھ میں پنجاب سے ایک ماہ پہلے گرمیوں کا سیزن شروع ہوتا ہے جس وجہ سے ربیع کا سیزن بھی پہلے شروع ہوتا ہے۔ جس وقت پنجاب میں گندم کاشت کی جا رہی ہوتی ہے اس وقت سندھ میں گندم کی کٹائی کا وقت ہوتا ہے۔

ماہرین کے خیال میں سندھ کو عموماً مارچ اور اپریل میں پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس وقت سندھ کو پانی فراہم نہیں کیا جاتا۔ پانی کی یہ فراہمی سندھ کو مئی، جون میں شروع ہوتی ہے۔ اب اس میں بھی یہ ہوتا ہے کہ یہ پانی پہلے پنجاب کو فراہم کیا جاتا ہے بعد میں سندھ کو دیا جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سندھ کی فصلیں پانی کی قلت کے سبب خراب ہو رہی ہوتی ہیں۔

ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ رواں سال سندھ میں پانی کی قلت شاید تاریخی ہے۔ جس سے کھڑی فصلیں خراب ہوچکی ہیں۔ زمین کو نئی فصلوں کے لیے تیار نہیں کیا جاسکتا۔ کسان اور زمیندار پانی کی قلت کے بارے میں آواز اٹھاتے رہے لیکن ان کی آواز کسی نے بھی نہیں سنی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان کو پانی کی قلت کا سامنا، سندھ سب سے زیادہ متاثر کیوں ہورہا ہے؟

شہر قائد میں بھی پانی کا مسئلہ سنگین ہوگیا

سندھ کے سب سے بڑے شہر کراچی کو اس وقت شدید پانی کی قلت کا خطرہ ہے۔ اسسٹنٹ انجینئرکینجھرجھیل کا کہنا ہے کہ کینجھر جھیل میں پانی کی سطح ڈیڈلیول کے قریب پہنچ گئی، جھیل میں پانی کی سطح 56 سے کم ہوکر 48 فٹ پر آگئی۔

ایک بیان میں کینجھر جھیل کے اسسٹنٹ انجینئر نے کہا کہ پانی کا لیول 42 فٹ ہونے پر کراچی کو پانی کی فراہمی بند ہوجائے گی۔ انہوں نے کہا کہ کراچی کو جھیل سے 1200 کیوسک پانی یومیہ فراہم کیا جاتا ہے، گلیشیئرز اور بارشوں کا پانی جھیل میں نہ آیا تو صورتحال مزید خراب ہوسکتی ہے۔

حال ہی میں حب ڈیم سے شہر قائد کو پانی فراہم کرنے والی کینال میں پانچ فٹ کا شگاف پڑگیا، ایسا بتایا جارہا ہے کہ کئی ماہ سے واپڈا حکام واٹربورڈ کو نشاندہی کررہے تھے کہ متاثرہ مقام کمزور ہورہا ہے فوری طور پر اس کی مرمت کی جائے مگر واٹربورڈ کے بلک ڈپارٹمنٹ نے اس حوالے سے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا جس کے باعث حب ڈیم کی کینال میں نہ صرف شگاف پڑگیا بلکہ کراچی کے شہریوں کو دس کروڑ گیلن پانی کی فراہمی رک گئی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اس صورتحال کی ذمے داری مکمل طور پر واٹربورڈ کی انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے، انتظامیہ کی غفلت اور لاپرواہی کے باعث یہ صورتحال پیدا ہوگئی ہے کیونکہ واپڈا کی طرف سے مسلسل واٹربورڈ کی انتظامیہ کواس بات کی نشاندہی کی جارہی تھی کہ جس مقام پر شگاف پڑا ہے وہ جگہ کمزور ہورہی ہے کسی بھی وقت یہ متاثر ہوسکتی ہے۔

سندھ میں پانی کی قلت ملکی معیشیت کو کمزور کرسکتی ہے

وزیر اطلاعات سندھ شرجیل میمن نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ سندھ کو پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے، وفاقی حکومت اس سنگین مسئلے پر فوری اقدامات کرے کیونکہ سندھ اور خاص طور پر کراچی کا ملکی معیشیت میں اہم کردار ہے۔

انہوں نے خبردار کیا کہ ملکی معیشیت کو پہلے سے ہی بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے، ایسے میں پانی کی کمی سے معیشیت مزید مشکلات کا شکار ہوجائے گی، پانی کی قلت سے سندھ کے زرعی پیداوار اور پھلوں کے باغات متاثر ہورہے ہیں، کسان اور آبادگار پریشان ہیں، فصلوں پر لاگت کے خرچے پورے نہیں ہورہے۔

مسئلے کا سدباب کیا ہے

 ماہرین کے خیال میں صوبے کے سب سے بڑے شہر میں درپیش پانی کے مسئلے کو حل کرنے کیلئے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ (کے ڈبلیو ایس بی) کی صورتحال میں فوری طور پر بہتری لانے کے لیے ایک حکمت عملی مرتب کی جائے۔

کے ڈبلیو ایس بی شہر کے شہریوں کو گھریلو استعمال کے پانی کی پیداوار، ترسیل، ٹریٹمنٹ اور تقسیم اور اس کے علاوہ شہر کے نکاس آب کا انتظام سنبھالنے کا ذمہ دار ہے۔ ان تمام ذمہ داریوں کو نبھانے میں بدقسمتی کے ساتھ اس ادارے نے کچھ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا ہے اور جب تک اس ادارے میں موجود کام کرنے کے طریقہ کار اور گورننس ڈھانچہ میں بہتری نہیں لائی جاتی تب تک شہر میں پانی کی صورتحال جوں کی توں رہے گی۔

ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملک کے ڈیموں میں پانی کو مناسب حکمت عملی کے ساتھ چھوڑے جانا چاہیے چونکہ کوئی حکمت عملی نہیں بنائی جاتی یہی وجہ ہے کہ وقت پڑنے پر سارے ڈیم خالی ہوتے ہیں۔

Related Posts