صدر مملکت کے تمام اختیارات بھی قانون کے ہی تابع ہیں، منیر اے ملک

مقبول خبریں

کالمز

zia
برسوں ایران میں رہنے والی اسرائیلی جاسوس خاتون کی کہانی
Philippines, Pakistan, National Day, Dr. Emmanuel Fernandez, bilateral ties, diplomacy, climate change, development, peace, trade, education, cultural exchange, sustainable future, regional cooperation, Mabuhay, Filipino community, Islamabad celebration, soft power, South-South partnerships, innovation, resilience, post-colonial nations, mutual respect, global south
مشترکہ جدوجہد اور روشن مستقبل کی ایک خوبصورت تقریب
Munir-Ahmed-OPED-768x768-1-750x750
روسی کے قومی دن کی خوبصورت تقریب

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

qazi faiz isa
جسٹس فائز عیسی کی اہلیہ اور بچے لندن اثاثوں کے مالک ہیں، کبھی انکار نہیں کیا ،وکیل

اسلام آباد : سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف ریفرنس پر سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کیخلاف درخواستوں پر سماعت کے دور ان منیر اے ملک نے دلائل دیتے ہوئے کہاہے کہ اثاثہ جات ریکوری یونٹ کو کسی جج کیخلاف مواد جمع کرنے کا اختیار نہیں، صدر کے تمام اختیارات بھی قانون کے ہی تابع ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف ریفرنس پر سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کیخلاف درخواستوں پر سماعت جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دس رکنی فل کورٹ نے کی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ عدالت نے سوال پوچھا تھا کیا ایگزیکٹو جج کیخلاف مواد اکٹھا کر سکتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ ایگزیکٹو صدر کی منظوری کے بعد ہی مواد جمع کر سکتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ اثاثہ جات ریکوری یونٹ کو کسی جج کیخلاف مواد جمع کرنے کا اختیار نہیں۔

جسٹس مقبول باقر نے کہاکہ کیا صدر کو اختیار ہے کہ مواد جمع کرنے کا حکم کسی بھی ادارے کو دے سکے۔ منیر اے ملک نے کہاکہ صدر کے تمام اختیارات بھی قانون کے ہی تابع ہیں۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہاکہ ایگزیکٹو اختیارات کا استعمال صدر کا کام نہیں۔

منیر اے ملک نے کہاکہ صدر کو جج کیخلاف شکایت وزیر اعظم اور کابینہ بھجوا سکتی ہے۔ جسٹس منیب اختر نے کہاکہ کیا صدر وزیراعظم کی سفارش کے خلاف حکم دے سکتا ہے۔ جسٹس فیصل عرب نے کہاکہ کیا وزیراعظم صدر کو سپریم جوڈیشل کونسل کی سفارش پر عمل سے روک سکتا ہے۔

منیر اے ملک نے کہاکہ ججز کی تعیناتی اور برطرفی وفاق کا ایگزیکٹو کا اختیار ہے۔جسٹس فیصل عرب نے کہاکہ ایگزیکٹو کے اختیارات جمہوریت میں صدر کیسے استعمال کر سکتا ہے۔ منیراے ملک نے کہاکہ کابینہ کی منظور ی کے بغیر معاملہ صدر کو نہیں بھیجا جا سکتا۔ منیر اے ملک نے کہاکہ جج کے خلاف ملنے والے مواد پر صدر کی رائے قائم ہونا لازمی ہے۔

منیر اے ملک نے کہاکہ صدر مملکت کا کام صرف ڈاکخانہ والا نہیں۔ انہوں نے کہاکہ ہر قانون کی خلاف ورزی مس کنڈکٹ کے زمرے میں نہیں آتی۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہاکہ آرٹیکل 209 کا اطلاق صرف اعلی عدلیہ کے ججز پر ہی نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہاکہ آڈیٹر جنرل، ممبران الیکشن کمیشن کو بھی آرٹیکل 209 کے تحت ہی ہٹایا جاتا ہے۔

انہوں نے کہاکہ آرٹیکل 209 کی ایسی تشریح نہیں چاہتے کہ کسی کو عہدے سے ہٹایا ہی نہ جا سکے۔انہوں نے کہاکہ آپ بھی نہیں چاہتے کہ جس کے خلاف ریفرنس ہو وہ بد نیتی کا الزام لگا کر سپریم کورٹ آ جائے۔منیر اے ملک نے کہاکہ ججز کو صرف بالوں سے پکڑنا اور گرفتار کرنا ہی تضحیک نہیں ہوتا۔ منیر اے ملک نے کہاکہ ججز اور انکے اہلخانہ کی جاسوسی اور نجی زندگی میں مداخلت بھی تضحیک ہے۔

منیر اے ملک نے کہاکہ جسٹس فائز عیسیٰ کیس میں جج اور اہلخانہ کی تضحیک اور ہراساں کیا جانا ثابت کرنے کی کوشش کی، عدالت کو طے کرنا ہوگا ججز کے معاملے میں ایگزیکٹو کے کیا اختیارات ہیں۔ وکیل جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ سپریم جوڈیشل کونسل کے پاس اصول وضع کرنے کا اختیار نہیں۔

منیر اے ملک نے کہاکہ آرٹیکل 248 کے تحت استثنیٰ وزیراعظم کو ہے انکے اقدامات کو نہیں۔انہوں نے کہاکہ وزیراعظم کے غیرقانونی احکامات چیلنج ہو سکتے ہیں۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہاکہ استثنیٰ وزیراعظم اور وزراء کی ذاتی زندگی اور فوجداری جرائم پر نہیں ہوتا۔

انہوں نے کہاکہ کیا ججز کو حاصل استثنیٰ وزیراعظم سے زیادہ مضبوط نہیں؟ ججز کے کردار پر تو پارلیمان میں بھی بحث نہیں ہو سکتی ۔ منیر اے ملک نے کہاکہ وزیر اعظم غیر قانونی اقدام کرے گا تو آرٹیکل 248 کا استثنیٰ دستیاب نہیں ہو گا۔ انہوں نے کہاکہ وحید ڈوگر کی شکایت صدر مملکت کے سامنے نہیں رکھی گئی،صد رمملکت سارے معاملے پر آنکھیں بند نہیں کر سکتے۔

جسٹس منیب اختر نے کہاکہ صدر مملکت اور وزیر اعظم نے کہاں غیر آئینی اقدام کیا ہے نشاندہی کریں۔انہوں نے کہاکہ درخواست میں عمومی کی باتین بہت زیادہ ہیں۔ منیر اے ملک نے کہاکہ شہزاد اکبر نے اپنی طرف سے ساری انکواری کروائی،صدر مملکت نے تیار ریفرنس پر اپنی آزاد رائے نہیں بنائی۔

جسٹس منیب اختر نے کہاکہ صد رمملکت کے اقدام میں بدنیتی کی نشاندہی بھی کریں،صدر مملکت کی جانب سے اقدام میں بدنیتی پر مطمئن کریں۔ جسٹس منیب اختر نے کہاکہ عدالتی نذیر سے نکل کر قانون کی خلاف ورزی کی نشاندہی کریں۔

منیر اے ملک نے کہاکہ وزیر اعظم نے کابینہ کو بائی پاس کیا، وزیرا عظم نے آئین کی خلاف ورزی کی ہے،مواد اکھٹا کرتے ہوئے آئین اور قانون کی خلاف ورزی ہوئی،تحریک انصاف نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ہٹانے کی بات نظر ثانی درخواست میں دائر کی تھی۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہاکہ وہ نظر ثانی کی درخواست واپس لے لی گئی تھی۔

منیر اے ملک نے کہاکہ اس نظر ثانی درخواست سے حکومت کا مائینڈ سیٹ پتا چلتا ہے۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہاکہ عدالت کسی کے اسٹیٹ آف مائنڈ کا کیسے جائزہ لے سکتی ہے۔ منیر اے ملک نے کہاکہ کیا وزیر اعظم نے ریفرنس پر اپنی سفارش نیک نیتی کے ساتھ دی۔

منیر اے ملک نے کہاکہ وزیر اعظم نے اپنی اہلیہ اور بچوں کو گوشواروں میں ظاہر نہیں کیا۔ جسٹس منیب اختر نے کہاکہ عمران خان نے وزیر اعظم کا عہدہ کب سنبھالا،وزیر اعظم نے رواں سال گوشواروں میں زیر کفالت کا ذکر کرنا تھا۔منیر اے ملک نے کہاکہ وزیر قانون نے ریفرنس کی سمری کابینہ کے بجائے وزیر اعظم کو بھیجی،وزیر قانون نے شہزاد اکبر کو انکوائری کا اختیار دیا۔

منیر ا ے ملک نے کہاکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا خفیہ دیٹا ایف بی آر سے لیا گیا،وزیر قانون ایم کیو ایم سے تعلق رکھتے ہیں،ایم کیو ایم کی دھرنا کیس میں نظر ثانی کی درخوست زیر التوا ہے۔ منیر اے ملک نے کہاکہ ریفرنس دائر ہونے کے بعد بھی شہزاد اکبر تحقیقات جاری رکھے ہوئے ہیں،ریفرنس اختیارات کے بغیر تیار کیا گیا۔

جسٹس منیر اختر نے کہاکہ وزیراعظم کی ایڈوائس افتخار چوہدری کیس میں بھی تھی، افتخار چوہدری کیس میں بدنیتی وزیراعظم نہیں صدر کے اقدامات کو قرار دیا گیا۔ منیر اے ملک نے کہاکہ اب وزیراعظم اکیلا کوئی سفارش نہیں کر سکتا، اختیار کابینہ کو منتقل ہو چکا ہے ،صدر کی ریفرنس پر آزادانہ رائے قائم ہونا لازمی ہے یا نہیں واضح نہیں۔

منیر اے ملک نے کہاکہ جسٹس فائز عیسیٰ کیخلاف ریفرنس میں کابینہ کو بائی پاس کیا گیا۔ جسٹس منیب اختر نے کہاکہ کیا صدر صرف سفارش کا پابند ہے یا اسکا اپنا اطمینان ضروری ہے؟ ایمرجنسی نافذ کرنے کا اختیار صرف حکومت کی سفارش پر استعمال نہیں ہو سکتا۔ جسٹس منیب اختر نے کہاکہ قانون میں ایمرجنسی نافذ کرنے کیلئے صدر کا اطمینان ضرور ہے۔

منیر اے ملک نے کہاکہ وزیراعظم کا عہدہ پارٹی اور سیاست سے بالاتر ہوتا ہے، صدر مملکت قوم کی وحدت کی علامت ہوتا ہے، وزیراعظم اور کابینہ کسی فیصلے پر خوش نہ ہوکر بھی جج کیخلاف سفارش کر سکتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ صدر کی رائے ہی ایگزیکٹو اور عدلیہ کو آمنے سامنے آنے سے روک سکتی ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہاکہ یہ بھی ہو سکتا ہے صدر کو کسی جج سے ذاتی عناد ہو۔ منیر اے ملک نے کہاکہ صدر کو ذاتی عناد ہو تو اسپریم کورٹ کا دروازہ کھلا ہے۔ جسٹس منیب اختر نے کہاکہ سپریم کورٹ کا دروازہ ہر صورت میں ہی کھلا ہوتا ہے، آپکو نہیں لگتا سارا اختیار صرف صدر کے پاس ہونا زیادہ خطرناک ہے؟ ۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ کیا صدر اپنے طور پر ریفرنس کی کارروائی شروع کر سکتا ہے؟ منیر اے ملک نے کہاکہ صدر کو ازخود کارروائی کا اختیار نہیں شکایت ملنا لازمی ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ آپکے مطابق جج سے ذاتی عناد ہو بھی تو صدر کچھ نہیں کر سکتا ۔منیر اے ملک نے کہاکہ صرف آ رٹیکل 2-58 کا اختیار صدر براہ راست استعمال کر سکتا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ اگر کسی ادارے کے پاس جج سے متعلق کوئی معلومات ہوتو وہ کیسے کارروائی کرے گا۔ منیر اے ملک نے کہاکہ ادارے کے قوانین کو مدنظر رکھنے کے ساتھ اسکو اجازت لینا بھی ضروری ہوگی۔

انہوں نے کہاکہ کل مزید دلائل جج کے تقرری اور ہٹائے جانے کے طریقہ کار پر دوں گا۔بعد ازاں سماعت بدھ ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کر دی گئی ۔

Related Posts