وزیراعظم عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد کا مرحلہ آخری مراحل میں پہنچ چکا ہے اور عین ممکن ہے کہ آج عمران خان وزارت عظمیٰ سے محروم ہوجائیں، معاشی بحران وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کی سب سے بڑی ناکامی رہی ہے تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ حکومت نے مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے بہت جدوجہد کی لیکن عالمی سطح پر اشیاء کی ریکارڈ بلند قیمتوں اور کورونا وائرس کے اثرات نے حکومت پر منفی اثر ڈالا۔
خوراک اور توانائی کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے مارچ میں افراط زر کی شرح 12اعشاریہ 7 فیصد ریکارڈ کی گئی جو کہ تحریک انصاف کے حکومت میں آنے سے پہلے جون 2018 میں ریکارڈ کی گئی شرح سے تین گنازیادہ ہے۔
پاکستانی کرنسی کی قدر میں 51 فیصد کمی ہوئی ہے اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی بدانتظامی بھی کھل کرسامنے آئی۔اپنے دور حکومت میں وزیراعظم نے معیشت کو کنٹرول میں لانے کے لیے جدوجہد کی۔
انہوں نے مہنگائی پر قابو پانے کیلئے اپنی اقتصادی ٹیم اور وزیر خزانہ کو متعدد بار تبدیل کیااور کئی مواقع پر سبسڈی فراہم کی لیکن تمام کوششیں بے نتیجہ رہیں اورآج معیشت پہلے سے کہیں زیادہ گہرے بحران میں ہے۔
ایشیائی ترقیاتی بینک (اے بی ڈی) نے کہا ہے کہ موجودہ سال میں شرح نمو کم ہو کر 4 فیصد رہ جائے گی اور مہنگائی دوہرے ہندسوں میں رہے گی۔ اقتصادی ترقی کی شرح حکومت کی جانب سے 4اعشاریہ 8 فیصد کی پیشگوئی سے کم ہے۔
دریں اثناء آئی ایم ایف نے سیاسی بحران کے درمیان بیل آؤٹ پیکیج کی اگلی قسط کو معطل کر دیا ہے جو کہ نئی حکومت کے بننے کے بعد ہی جاری کیا جائے گا۔اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے شرح سود کو دو سال کی بلند ترین سطح 12اعشاریہ 25 فیصد تک پہنچا دیا ہے۔
مرکزی بینک کی مداخلت سے قبل پاکستانی کرنسی 189 روپے کی تاریخی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ تجارتی خسارہ مالی سال میں 35اعشاریہ 4 بلین ڈالر کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گیا ہے کیونکہ برآمدات میں کمی اور درآمدات میں اضافہ ہوا ہے، ایک ایسا رجحان جسے حکومت اپنے پورے دور میں تبدیل نہیں کر سکی۔
بڑھتا ہوا خسارہ زرمبادلہ کے ذخائر پر بہت زیادہ اثر ڈال رہا ہے جو تیزی سے نیچے جا رہے ہیں اور قرضوں کی ادائیگیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ غیر ملکی کرنسی کے ذخائر مسلسل گر رہے ہیں اور 25 مارچ کو مزید کم ہو کر 12 بلین ڈالر تک پہنچ گئے بمشکل دو ماہ کی درآمدات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہے۔
وزیر اعظم اپنے پیچھے جو معاشی مسائل چھوڑ کرجارہے ہیں وہ ان کی کارکردگی پر نشان ہے اور اگلے انتخابات اور آنے والے سالوں میں یہ معاشی اعداد وشمارعمران خان کی سیاسی مہم کو متاثر کرے گی۔