اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے شرح سود میں 2اعشاریہ 5 فیصد اضافے کے بعد پاکستان خطے میں بلند ترین شرح سود والے ممالک میں پہلے نمبر پر آگیا ہے،اسٹیٹ بینک کی جانب سے جاری کردہ مانیٹری پالیسی کے مطابق غیر ملکی ادائیگیوں میں عدم توازن اور مہنگائی کے باعث بنیادی شرح سود 12اعشاریہ 25 فیصد کرنے کا فیصلہ کیاگیا ہے۔
سال 2018 میں جب پاکستان تحریک انصاف نے ملک کی باگ ڈور سنبھالی تو اس وقت ملک میں شرح سود 7 فیصد تک تھی تاہم مہنگائی اورادائیگیوں کے عدم توازن کی وجہ سے مسلسل اضافے کی وجہ سے آج 12اعشاریہ 25 فیصد تک آچکی ہے۔
جہاں تک مہنگائی کا تعلق ہے تو پاکستان میں گزشتہ ہفتے مہنگائی کی شرح میں 1اعشاریہ 53 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ادارہ شماریات کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق ایک ہفتے میں مہنگائی کی مجموعی شرح 17اعشاریہ 87 فیصد تک پہنچ گئی، ایک ہفتے میں 22 اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا جبکہ ایک ہفتے میں 8 اشیاء کی قیمتوں میں کمی ریکارڈ کی گئی اور 21 اشیاء کی قیمتوں میں استحکام رہا۔
شرح سودمیں250بیسس پوائنٹس کا اضافہ کیا گیا ہے اور آنے والے دنوں میں شرح سود میں مزید اضافے کی خبریں گردش کررہی ہیں جس کے کورونا زدہ معیشت پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوں گے بالخصوص تجارت وصنعت کی پیداواری لاگت میں نمایاں اضافے کے ساتھ ساتھ مہنگائی کا طوفان آجائے گا۔
اس وقت حقیقت یہ ہے کہ تاجر وصنعتکا ر برادری کو پہلے ہی سرمائے کی شدید قلت کا سامنا ہے اور وہ اپنی بقا قائم رکھنے کے لیے سخت جدوجہد کررہے ہیں۔ ان حالات میں اسٹیٹ بینک کا شرح سود میں اضافہ کرنے سے شدید مالی بحران کا سامنا کرنا پڑے گا جو کسی صورت بھی ملکی معیشت کے حق میں نہیں۔
تاجر و صنعت کاروں کا کہنا ہے کہ تجارت وصنعتوں کوتباہ ہونے سے بچانے کے لیے فوری طور پر شرح سود میں مناسب کمی کی جائے تاکہ تاجروں کوسرمائے کی باآسانی رسائی ممکن ہوسکے اور وہ تمام تر مشکلات کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنا کاروبار اور صنعتی پیداواری سرگرمیاں جاری رکھ سکیں بصورت دیگر ان کے لیے کاروباری وپیداواری سرگرمیاں رکاوٹ کاشکار ہوجائیں گی جس کے معیشت پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
معاشی ماہرین کا ماننا ہے کہ جب لوگوں کو زیادہ شرح سود ملے گا تو وہ رقومات کو کاروبار یا خرچ کرنے کے بجائے بینک میں رکھنا پسند کرینگے اس سے ممکن ہے کہ عارضی طور پر ادائیگیوں کے توازن کو بہتر بنایا جاسکے تاہم شرحِ سود بڑھنے سے عام لوگ اپنی روزمرہ زندگی میں اخراجات بھی کم کرنے لگتے ہیں جس کی وجہ سے قومی مجموعی پیداوار میں بھی کمی ہوتی ہے۔
شرح سود کی وجہ سے معاشی سرگرمیوں میں کمی کی وجہ سے روزگار بھی کم ہوگااور مہنگائی کی شرح میں کمی بھی خارج ازامکان ہے۔ شرح سود میں اضافے سے اقتصادی سرگرمیوں کو دھچکا لگے گا اورمعیشت سکڑنے کا عمل تیزہوجائے گا،کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بھی کم نہیں ہوگا بلکہ اسٹیٹ بینک کے اندازوں سے زیادہ ہوجائے گا حکومت کو مزید قرضے بھی لینا ہونگے۔اس لئے بلند شرح سود کو معیشت کیلئے کسی صورت سود مند اقدام قرار نہیں دیا جاسکتا۔