وزیراعظم عمران خان کو عدم اعتماد کے ووٹ کا سامنا ہے اور وہ اپنی حکومت کو بچانے کے لیے جدوجہد میں مصروف ہیں، اپوزیشن کا خیال ہے کہ ان کے پاس حکومت کو ہٹانے کے لیے اراکین کی صحیح تعداد موجود ہے۔ اس وقت ایسا لگتا ہے کہ وزیر اعظم کے خلاف مشکلات بڑھ گئی ہیں لیکن پاکستانی سیاست میں کچھ بھی متوقع ہے۔
تحریک عدم اعتماد کے لیے قومی اسمبلی کا اجلاس جمعہ کو طلب کیا گیا ہے۔ اصل ووٹنگ سے قبل یہ فیصلہ کرنے میں کئی دن لگ سکتے ہیں کہ آیا وزیراعظم عمران خان کو ہٹا دیا جائے گا۔ وزیراعظم نے کسی قیمت پر استعفیٰ نہ دینے اور اپوزیشن کے منصوبے کو ناکام بنانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے ایک بہت بڑے سرپرائز کا اشارہ بھی دیا ہے لیکن وزیراعظم کا ٹرمپ کارڈ اصل میں کیا ہوگا یہ جاننے کی ضرورت ہے۔
تحریک عدم اعتماد کا ان کی غلط طرز حکمرانی سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ وزیر اعظم اور ریاستی اداروں کے درمیان دراڑ ہے۔ جب سے وزیراعظم نے اقتدار سنبھالا ہے اپوزیشن ان کے خلاف مہم چلا رہی ہے۔ اپوزیشن کی جانب دباؤ ڈالا جارہا ہے اور وزیر اعظم کو استعفیٰ دینے پر مجبور کرنے کے لیے ریلیاں نکالی جارہی ہیں، لیکن کسی بھی غیر آئینی اقدام سے ہوشیار رہیں۔
وزیر اعظم کو سب سے بڑا چیلنج یہ درپیش ہے کہ اگر پارٹی کے منحرف ارکان اور اتحادی اپوزیشن میں شامل ہوجاتے ہیں تو حکومت نہیں رہے گی، وزیراعظم نے قانون سازوں کو پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے سے روکنے کے لیے عدالت سے رجوع کیا ہے اور تاحیات نااہلی چاہتے ہیں۔ امکان ہے کہ عدالت پارلیمنٹ کی کارروائی میں مداخلت کے خلاف فیصلہ دے گی لیکن اس عمل میں وقت لگ سکتا ہے۔
حکمراں جماعت پی ٹی آئی نے ہفتے کے آخر میں اسلام آباد میں تاریخی جلسہ کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے، تحریک عدم اعتماد نے آئینی، انتظامی اور معاشی بحرانوں کا خطرہ بڑھا دیا ہے۔ آئی ایم ایف نے رواں ہفتے بیل آؤٹ پیکج کا جائزہ لینا تھا لیکن ابھی تک ایسا نہیں ہوا۔
اس سے قطع نظر کہ تحریک عدم اعتماد کا کیا نتیجہ نکلتا ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملک نئے انتخابات کی جانب بڑھ رہا ہے، اگلے عام انتخابات 2023 کے آخر تک ہونے والے ہیں اور کسی بھی وزیر اعظم نے اپنی پانچ سالہ مدت پوری نہیں کی۔ دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعظم اس سیاسی بحران سے کس طرح بچیں گے۔