خانیوال میں توہین مذہب کے ملزم مشتاق کے ساتھ کیا ہوا؟

مقبول خبریں

کالمز

Firestorm in the Middle East: Global Stakes on Exploding Frontlines
مشرق وسطیٰ میں آگ و خون کا کھیل: عالمی امن کیلئے خطرہ
zia-2
آٹا 5560 روپے کا ایک کلو!
zia
برسوں ایران میں رہنے والی اسرائیلی جاسوس خاتون کی کہانی

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

blasphemy in Khanewal

چند روز قبل ایک اور واقعہ میں صوبہ پنجاب کے ضلع خانیوال میں میاں چنوں کے دیہی علاقے میں  پیش آیا جب ایک ہجوم نے توہین مذہب کے الزام میں ایک شخص کو مار مار کر ہلاک کر دیا۔

مقتول کی شناخت مشتاق احمد کے نام سے ہوئی جس کی عمر 41 سال بتائی جاتی ہے،مقتول کو مبینہ طور پر ایک مسجد کے اندر قرآن پاک کی بے حرمتی کرتے ہوئے دیکھا گیا۔ نماز مغرب کے بعد سیکڑوں لوگ جمع ہوئے اورتقریباً 300 لوگوں نے مشتاق کو پکڑ لیا اور اسے پیٹنا شروع کر دیا اور بالآخر توہین مذہب کے الزام میں سنگسار کر دیا۔

خانیوال میں ہواکیا تھا؟

میڈیا رپورٹس کے مطابق گاؤں کی مسجد کے متولی نے پولیس کو بتایا کہ اس نے اپنے گھر سے ملحقہ مسجد کے اندر دھواں سا دھواں اٹھتا دیکھا تو مسجد میں جانے پر قرآن کا ایک نسخہ جلا ہوا پایا اور ایک شخص کو قرآن پاک کے اوراق جلاتے دیکھا۔ مسجد کے متولی کا کہنا ہے کہ ملزم کو آواز دینے پر اس نے بھاگنے کی کوشش کی جبکہ اس دوران لوگ نماز کیلئے مسجد آنا شروع ہوگئے تھے۔

علاقے سے موصول ہونیوالی اطلاعات کے مطابق ذہنی طور پر بیمار مقتول نے مبینہ طور پر بے گناہی کا دعویٰ کیا لیکن گاؤں والوں نے اسے ایک درخت سے باندھا اور پھر اسے اینٹوں سے مارا یہاں تک کہ وہ مر گیا۔

عینی شاہدین نے بتایا کہ پولیس کی ایک ٹیم پتھراؤ سے پہلے گاؤں پہنچی اور متاثرہ کو حراست میں بھی لے لیا لیکن ہجوم نے اسے پولیس کی حراست سے بھی چھین لیا۔

مقامی پولیس کے مطابق ہجوم نے اس شخص اور افسران پر پتھراؤ شروع کر دیا۔ اس کے بعد ہجوم نے اس کی لاش کو درخت سے لٹکا دیا۔ سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی ویڈیوز میں دکھایا گیا ہے کہ اس جگہ پر ایک بڑا ہجوم جمع ہے۔

پولیس نے بتایا کہ ہجوم کو منتشر کرنے کی کوشش کے دوران حملے میں تین اہلکار زخمی ہوئے بعد میں مزید افسران اور کانسٹیبل جائے وقوعہ پر پہنچے اور صورتحال پرقابو پالیا، لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے اسپتال منتقل کرنے کی اجازت دی۔

واقعہ کے بعد کی صورتحال

پولیس نے ویڈیو فوٹیج سے شناخت کرنے کے بعد 82 افراد کو گرفتار کیا ہے جن میں واقعے کے چھ اہم مشتبہ افراد بھی شامل ہیں۔ پولیس نے کہا کہ تفتیش کار حملہ آوروں کی شناخت کے لیے دستیاب ویڈیوز کو اسکین کر رہے ہیں۔

متقلہ تھانے کے ایس ایچ اومنور گجر نے ایک میڈیا کو بتایاکہ مقتول گزشتہ 15 سالوں سے ذہنی طور پر معذورتھا اور بقول اہل خانہ کے اکثر گھر سے غائب ہو جاتا تھا۔

ابتدائی رپورٹ میں آئی جی پولیس راؤ سردار نے کہا کہ پولیس نے 33 نامزد ملزمان سمیت 300 نامعلوم ملزمان کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج کیا ہے اور مزید مشتبہ افراد کی شناخت کے لیے پولیس دستیاب فوٹیج کا فرانزک تجزیہ کرے گی۔

واقعہ کی مذمت

وزیراعظم عمران خان نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے کہا ہے کہ مجرموں کے ساتھ ’زیرو ٹالرنس‘ کا مظاہرہ کیا جائے گا اور پولیس چیف سے رپورٹ طلب کر لی ہے۔

وزیراعظم کے نمائندہ خصوصی برائے مذہبی ہم آہنگی طاہر اشرفی نے بتایا کہ متاثرہ شخص ذہنی طور پر معذورتھا اور تقریباً 15 سال سے ذہنی بیماری میں مبتلا تھا۔

Related Posts