جدید غزل کے معماروں میں شامل باکمال و نامور شاعر ناصرؔ کاظمی کا آج 94واں یومِ پیدائش ہے جبکہ مشہورومعروف شاعر کے منفرد اسلوب نے ہر دور کے قاری کی توجہ اپنی طرف کھینچی۔
ناصر کاظمی نے 8 دسمبر 1925ء میں بھارت کے مشہور شہر امبالہ میں جنم لیا۔ان کا پورا نام ناصر رضا کاظمی جبکہ ابتدائی نام یعنی ناصر تخلص تھا۔ انہوں نے 1 سال تک اوراقِ نو نامی جریدے کی ادارت کی۔
حفیظؔ ہوشیار پوری کے شاگرد ناصر کاظمی نے جدید اردو غزل کے احیاء میں اہم کردار ادا کیا۔ ناصرّ کاظمی نے شعر و شاعری کے ساتھ ساتھ نثر و مضامین کو بھی اظہارِ خیال کا ذریعہ بنایا اور ان کے مضامین کتابی صورت میں شائع بھی ہوئے۔
شعر و شاعری میں ناصرؔ کاظمی کی سب سے بڑی پہچان ان کی غزل ہے جبکہ مندرجہ ذیل غزل ان کے کلام میں ایک ممتاز حیثیت رکھتی ہے جسے آج کی نئی نسل بھی شوق سے گنگنا رہی ہے:
گئے دنوں کا سراغ لے کر کدھر سے آیا کدھر گیا وہ
عجیب مانوس اجنبی تھا مجھے تو حیران کر گیا وہ
بس ایک موتی سی چھب دکھا کر بس ایک میٹھی سی دھن سنا کر
ستارۂ شام بن کے آیا برنگ خواب سحر گیا وہ
خوشی کی رت ہو کہ غم کا موسم نظر اسے ڈھونڈتی ہے ہر دم
وہ بوئے گل تھا کہ نغمۂ جاں مرے تو دل میں اتر گیا وہ
نہ اب وہ یادوں کا چڑھتا دریا نہ فرصتوں کی اداس برکھا
یوں ہی ذرا سی کسک ہے دل میں جو زخم گہرا تھا بھر گیا وہ
کچھ اب سنبھلنے لگی ہے جاں بھی بدل چلا دور آسماں بھی
جو رات بھاری تھی ٹل گئی ہے جو دن کڑا تھا گزر گیا وہ
بس ایک منزل ہے بوالہوس کی ہزار رستے ہیں اہل دل کے
یہی تو ہے فرق مجھ میں اس میں گزر گیا میں ٹھہر گیا وہ
شکستہ پا راہ میں کھڑا ہوں گئے دنوں کو بلا رہا ہوں
جو قافلہ میرا ہم سفر تھا مثال گرد سفر گیا وہ
مرا تو خوں ہو گیا ہے پانی ستم گروں کی پلک نہ بھیگی
جو نالہ اٹھا تھا رات دل سے نہ جانے کیوں بے اثر گیا وہ
وہ مے کدے کو جگانے والا وہ رات کی نیند اڑانے والا
یہ آج کیا اس کے جی میں آئی کہ شام ہوتے ہی گھر گیا وہ
وہ ہجر کی رات کا ستارہ وہ ہم نفس ہم سخن ہمارا
صدا رہے اس کا نام پیارا سنا ہے کل رات مر گیا وہ
وہ جس کے شانے پہ ہاتھ رکھ کر سفر کیا تو نے منزلوں کا
تری گلی سے نہ جانے کیوں آج سر جھکائے گزر گیا وہ
وہ رات کا بے نوا مسافر وہ تیرا شاعر وہ تیرا ناصرؔ
تری گلی تک تو ہم نے دیکھا تھا پھر نہ جانے کدھر گیا وہ
نامور شاعر ناصر کاظمی کے بارے میں بہت کم لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ انہوں نے شعر و شاعری کی تکنیک میں بحروں کے استعمال میں وہ قدرت حاصل کی کہ اپنے استاد حفیظؔ ہوشیار پوری کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔
میں ہوں رات کا ایک بجا ہے
خالی رستہ بول رہا ہے
آج تو یوں خاموش ہے دنیا
جیسے کچھ ہونے والا ہے
کیسی اندھیری رات ہے دیکھو
اپنے آپ سے ڈر لگتا ہے
آج تو شہر کی روش روش پر
پتوں کا میلہ سا لگا ہے
آؤ گھاس پہ سبھا جمائیں
مے خانہ تو بند پڑا ہے
پھول تو سارے جھڑ گئے لیکن
تیری یاد کا زخم ہرا ہے
تو نے جتنا پیار کیا تھا
دکھ بھی مجھے اتنا ہی دیا ہے
یہ بھی ہے ایک طرح کی محبت
میں تجھ سے تو مجھ سے جدا ہے
یہ تری منزل وہ مرا رستہ
تیرا میرا ساتھ ہی کیا ہے
میں نے تو اک بات کہی تھی
کیا تو سچ مچ روٹھ گیا ہے
ایسا گاہک کون ہے جس نے
سکھ دے کر دکھ مول لیا ہے
تیرا رستہ تکتے تکتے
کھیت گگن کا سوکھ چلا ہے