صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی 5سالہ مدتِ اقتدار پوری ہوچکی ہے جس کے بعد وہ مدت مکمل کرنے والے ملک کے چوتھے منتخب جمہوری صدر بن گئے۔
صدرِ مملکت نے اسمبلیاں تحلیل ہونے اور 5سال کی تکمیل کے بعد بھی اپنے عہدے پر برقرار رہتے ہوئے نئے صدر کی آمد تک کام جاری رکھنے کا فیصلہ کر لیا ہے جبکہ نئے صدر کی جلد آمد کا فی الحال کوئی امکان نہیں۔
اس کا سبب یہ ہے کہ صدر کے انتخاب کیلئے درکار الیکٹورل کالج فی الحال موجود نہیں اور نگران حکومت آئین کے مطابق بھی 3 ماہ میں ہی انتخابات کے انعقاد کی پابند ہے، اس لیے ڈاکٹر عارف علوی غیر معینہ مدت تک کیلئے صدر برقرار رہ سکتے ہیں۔
آئینِ پاکستان کہتا ہے کہ صدر اس وقت تک اپنے عہدے پر فائز رہ سکتا ہے جب تک کہ اس کی جگہ کسی دوسرے شخص کو صدرِ مملکت منتخب نہ کر لیا جائے جبکہ عام انتخابات کی تاریخ کا تاحال اعلان نہیں ہوسکا۔
اگر ڈاکٹر عارف علوی بطور صدرِ پاکستان اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیتے تو ان کی جگہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی قائم مقام صدر کا کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں تھے تاہم صدرِ مملکت نے استعفیٰ نہ دے کر عہدہ برقرار رکھنے کا صائب فیصلہ کیا۔
بلاشبہ صدرِ مملکت کی مدت کے دوران کافی اہم واقعات رونما ہوئے۔ خاص طور پر سابق وزیر اعظم عمران خان کے دور میں صدرِ مملکت پر 77 آرڈیننس پر دستخط کرکے ایوانِ صدر کو آرڈیننس فیکٹری بنانے کا الزام بھی عائد کیا جاتا ہے۔
عدلیہ کے ججز کے خلاف ریفرنس بھیجنے اور اداروں میں ناقص تقرریوں پر بھی صدرِ مملکت پر تنقید ہوئی جبکہ سب سے بڑا تنازعہ اس وقت کھڑا ہوا جب صدرِ مملکت نے سابق وزیر اعظم عمران خان کی ایڈوائس پر قومی اسمبلی فوری تحلیل کردی۔
بعد ازاں سپریم کورٹ کے بینچ نے صدرِ مملکت کے فیصلے کو قانون کے منافی قرار دیا۔ 2020 میں سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو بھی خارج کردیا تھا۔
جب پی ٹی آئی حکومت رخصت ہوئی اور صدرِ مملکت بدستور اپنے عہدے پر فائز تھے تو خود تحریکِ انصاف سمیت دیگر سیاسی جماعتوں نے ڈاکٹر عارف علوی کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ پی ڈی ایم کو شکایت رہی کہ صدرِ مملکت متعصبانہ رویہ رکھتے ہیں۔
سابق وزیر اعظم شہباز شریف سے وزارتِ عظمیٰ کا حلف لینے سے انکار پر ایک اور تنازعہ کھڑا ہوا۔ پھر پی ڈی ایم حکومت وقتاً فوقتاً جو آرڈیننس ڈاکٹر عارف علوی کو بھیجتی رہی، صدرِ مملکت ان کی منظوری میں تاخیر یا دستخط کیے بغیر واپس کرنے کے باعث بھی تنقید کا نشانہ بنے۔
جب پی ڈی ایم اتحادیوں نے نئے انتخابات سے انکار کیا تو صدرِ مملکت نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان کردیا تاہم متعلقہ عہدیداران نے اس پر عمل نہیں کیا، نہ ہی انتخابات ہوسکے۔ پی ڈی ایم نے انتخابی قوانین میں ترمیم کرکے صدر سے انتخابات کے اعلان کا حق بھی چھین لیا۔
تازہ ترین تنازعہ یہ رہا کہ صدرِ مملکت نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے دو اہم بلز یعنی آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ ترمیمی بلز پر دستخط نہیں کیے جس کے بعد ایسی اطلاعات بھی سامنے آچکی ہیں کہ اگر صدرِ مملکت نے عہدہ چھوڑا تو ان کے خلاف قانونی کارروائی شروع کی جاسکتی ہے۔
بطور صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو خصوصی اختیارات حاصل ہیں جو آج بھی آئینی اعتبار سے ملک کا مؤقر ترین عہدہ سمجھا جاتا ہے، حالانکہ وزیر اعظم کے مقابلے میں صدرِ مملکت کے اختیارات محض رسمی نوعیت کے ہوتے ہیں تاہم اپنے عہدے پر برقرار رہتے ہوئے انہیں قانونی کارروائی کا سامنا بہرحال نہیں کرنا پڑے گا۔
ضروری ہے کہ سربراہِ مملکت کا عہدہ ہر قسم کے تنازعات سے پاک رہے تاہم یہ بھی ضروری ہے کہ ملک میں اسمبلی کی تحلیل کے 90روز کے اندر انتخابات کرائے جائیں جس پر صدرِ مملکت نے اصولی ردِ عمل کا مظاہرہ کیا اور ان کا صدر کے عہدے پر برقرار رہنے کا فیصلہ بھی آئین سے متصادم نہیں ہے۔