مشرف دور حکومت میں قائم کردہ پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ جس کا مقصد مدارس کو مرکزی دھارے میں شامل کرنے کے علاوہ ماڈل مدارس قائم کرنا تھا، مگر یہ بورڈ تین ماڈل مدارس میں 40 سے زائدعارضی ملازمین کو 14 سال میں مستقل نہ کر سکا۔
پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کو گزشتہ حکومت نے وزارت مذہبی امور سے منتقل کرکے وزارت تعلیم کا حصہ بنا دیا تھا تاہم وہ ملازمین اور ان کے مسائل جوں کے توں ہی رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:
عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی ایک اور مبینہ آڈیو سامنے آگئی
پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ سکھر اور اسلام آباد کے ملازمین نے اپنی مستقلی کے عدالتوں میں کیس دائر کیے ہوئے ہیں اور سکھر ہائی کورٹ نے 3 سال قبل ملازمین کو مستقل کرنے کا فیصلہ دیا تھا جس پر نہ تو وزارت مذہبی امور نے عمل در آمد کروایا اور نہ ہی اب تک وزارت تعلیم اس پر عمل کراسکی ہے۔ واضح رہے کہ سکھر عدالت میں فیصلے پر عمل نہ کرنے پرتوہین عدالت کا کیس چل رہا ہے اور وزارت تعلیم کے ا فسران ہر مرتبہ حیلے بہانے سے تاریخوں پر تاریخیں لے رہے ہیں۔
موجودہ حکومت کی جانب سے قائم کردہ پارلیمانی اراکین پر مشتمل اراکین تمام سرکاری عارضی ملازمین کے مسائل کے حل کے لیے ایک کمیٹی قائم ہے سکھر اور اسلام آباد کے 40 سے زائد ملازمین نے اس کمیٹی میں بھی سکھر ہائی کورٹ کے فیصلہ پر عمل در آمد نہ کرانےکے خلاف درخواست جمع کرائی ہے۔
تاخیری حربے اختیار کرنے پر جج حضرات نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا آپ کو معلوم ہے کہ یہ معاملہ فیصلہ پر عمل در آمد نہ کرنے پر توہین عدالت کا کیس چل رہے اور پرانی باتیں کر رہے ہیں۔ بورڈ کے فیصلہ کی وضاحت کا وقت گزر چکا ہے اب آپ کو عدالت کے فیصلہ پر عمل کرنا ہے۔ اور باقی ہم عدالت کے ذریعہ سے اسٹیلشمنٹ سے پوچھیں گے تاخیر کی وجہ کیا اور اب تک جواب کیوں نہیں بھیجا گیا ہے۔ اگلی تاریخ سے قبل اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کا جواب کاپی بھی جمع کرائیں اور بتائیں کہ ان کو مستقل کرنا ہے یا نہیں؟
دوسری جانب ملازمین نے وفاقی حکومت کی جانب سے اعلیٰ سطحی قائم پارلیمانی کمیٹی میں بھی ہائی کورٹ کے فیصلہ پر عمل نہ کرنے کے خلاف درخواست دائر کردی ہے۔