کراچی میں مارکیٹیں بند، اسکول کھل گئے، اشیاء خوردونوش کی قلت،گرانفروشی شروع

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

PM Imran to launch support program for unemployed persons today

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کراچی :کورونا وائرس کے باعث مختلف دوکانیں بند ہونے کے بعد شہر میں اشیاء خرد نوش کی قلت کے ساتھ گراں فروشی میں بھی اضافہ ہو گیا، دوسری طرف بعض اسکول اب بھی کھل رہے ہیں،جبکہ انٹر سٹی کے بس سروس بند ہونے کے بعد نجی ٹرانسپورٹ کار ( ٹیکسی) منہ مانگے کرائے وصول کرنے لگے۔

مصنوعی غذائی قلت کی صورتحال ظاہر کر کے دوکانداروں نے غریب افراد سے آٹا خریدنے کی قوت ہی چھین لی،10کلو آٹے کا تھیلا 750روپے میں فروخت کیا جا رہا ہے۔

یوٹیلیٹی اسٹورز پر آٹا غائب کر دیا گیا ہے، یوٹیلیٹی اسٹورز پر عوام کا بے پناہ رش مگر انتظامیہ عوام کو ایک ہی جواب دے رہی ہے کہ آٹا اور چینی دستیاب نہیں، مارکیٹیں اور کارخانے بند ہونے سے غذائی قلت کی صورتحال پیدا ہونے لگی ہے۔

دوکاندار وں کا کہنا ہے کہ فلور ملز سے آٹا نہیں مل رہا جبکہ فلورز مل مالکان کہتےہیں کہ آٹا بدستور فراہم کیا جا رہا ہے، دوسری طرف سندھ حکومت کا گھروں میں راشن پہنچانے کا دعوہ دھرا رہ گیا ، حکومت کے محکمہ خوراک نے اس حوالے سے اب تک کوئی عملی اقدامات شروع نہیں کیے۔

شہر قائد کی تمام مارکیٹیں بند جبکہ شہریوں کا کہنا ہے کہ مضافاتی علاقوں میں اب بھی دوکانیں کھلی ہوئی ہیں، جہاں مرکیٹس بند ہونے کے باعث زیادہ رش دیکھنے میں آرہا ہے۔

حکومت نے مارکیٹیں تو بند کرا دیں لیکن تاہم پرائیویٹ اسکول اور فیکٹریز معمول کے مطابق کام کر رہے ہیں جبکہ اسکول مالکان کا کہنا ہے کہ ہم لوگ ماہانہ فیس وصول کرنے کے لئے اسکول کھول کر بیٹھے ہیں۔

مزید پڑھیں:کورونا وائرس :اسلام آباد میں کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ

اسٹاف ہے، مگربچے نہیں ہیں جبکہ دوسری جانب پولیس کی بھاری نفری مارکیٹ بند کرانے کے لئے نکلتی ہے اور کچھ دکانداروں کو پکڑ کر تھانے میں لے جاتے ہیں چار سے پانچ ہزار روپے رشوت لے کر پھر ان کو چھوڑ دیتے ہیں، پھر پابند کرتے ہیں کہ مارکیٹ نہ کھلے شہریوں کا وزیراعلی سندھ سے مطالبہ ہے کہ کیا فیکٹری مالکان حکومت سندھ کے اختیار میں نہیں ہیں۔

کارخانے معمول کے مطابق چل رہے ہیں ، اور ایسے کارخانے کورونا کے پھیلاو کا سبب بن سکتے ہیں، ٹرانسپورٹ مافیا نے وزیراعلی سندھ کے احکامات نظر انداز کر دیے سہراب گوٹھ پر پبلک ٹرانسپورٹ معمول کے مطابق چل رہی ہے اس کے علاوہ شہریوں سے اضافی کرایا وصول کیا جارہا ہے کار سروس 800روپے کوسٹر 500 روپے حیدرآباد کا کرایہ وصول کر رہے ہیں ۔

شہریوں کی محکمہ ٹرانسپورٹ کے افسران سے اور صوبائی وزیر سے پرزور مطالبہ کیا ہے کہوہ اس زیادتی اور بلیک مارکیٹینگ کا سختی سے نوٹس لیں،حکومت سندھ کو اپنے اقدامات کے مثبت نتائج کے حصول کے لیے ،ضلعی انتظامیہ اور متعلقہ اداروں سے سختی سے باز پرس کرنا ہوگی جبکہ پولیس کو بھی پابند کرنا ہوگا کہ وہاپنے علاقے میں دفعہ 144کی خلاف ورزی کے خود زمہ دار ہوں گے اور سزا کے مستحق ٹھہریں گے۔

Related Posts