کراچی میں روڈ کٹنگ مافیا نے بھی ماہانہ لاکھوں کی کرپشن شروع کردی

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

شہرقائد میں اداروں کے افسران نہ تو کراچی سے نہ شہریوں سے مخلص ہیں بلکہ اپنی ناجائز کمائی کے لیے ایک طرف اداروں کو مالی نقصان پہنچاتے ہیں تو دوسری طرف کراچی اور شہریوں کو بڑا نقصان پہنچ رہا ہے، شہری ادارے جن میں ضلعی بلدیاتی، بلدیہ عظمیٰ کراچی، واٹر بورڈ ،اور ادارہ ترقیات شامل ہیں۔ان اداروں کے علاقائی انجینئرز ( XEN ) کا یہ وطیرہ ہے کہ ان کے اپنے علاقے میں جب کوئی کمپنی یا ادارہ اپنی لائینیں زیر زمین ڈالنے کے لیے سڑک کی کھدائی ( روڈ کٹنگ) کرتا ہے تو اس سے ساز باز کر کے روڈ کٹنگ ایریا کے ناپ تول میں گھپلا کیا جاتا ہے اور انتہائی معمولی چالان دے کر جو چند لاکھ روپے کا بنادیا جاتا ہے جبکہ اس کا اصل چالان کروڑوں میں بننا چاہیے ۔

ایکسیئن یا روڈ کٹنگ انچارج اس مد میں کم رقم کا چالان بنا کر ادارے کو بھاری مالی نقصان پہنچاتا ہے، اس شہری ادارے کو رقم کم وصول ہوتی ہے تو اسی باعث اس مقام پر جہاں روڈ کٹنگ کی گئی ہوتی ہے وہاں کی مرمت میں مالی مشکلات درپیش ہوتی ہیں، یہ ہی وجہ ہے کہ پھر اس مقام پر روڈ سڑک کی مرمت سالہاسال نہیں ہو پاتی اور اس کا خمیازہ یہاں سے روز گزرنے والے شہریوں کو کئی سال تک بھگتنا پڑتا ہے

سب سے زیادہ خراب صورتحال ادارہ ترقیات کراچی ( KDA) میں ہے جہا ں گلستان جوہر ،گلشن اقبا اور سرجانی میں تعینات ’’کے ڈی اے‘‘ ایکسیئن کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہیں اور یہ افسران روڈ کٹنگ مافیا کا حصہ بن چکے ہیں۔

اب افسران نے گزشتہ دنوں گلستان جوہر میں ایک سنگین بد عنوانی کا مظاہرہ کیا تھا جس میں گلستان جوہر کے 6 سیکٹر میں ہونے والی روڈ کٹنگ کے لیے صرف 2 سیکٹرز کا چالان بنایا گیا تھا اور اس میں بھی گھپلا کرکے پیمائش کم لکھی گئی جس سے ادارے کو کروڑوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑا اور کروڑوں روپے وصولی کے بجائے صرف چند لاکھ روپے ہی ادارے کی اکاونٹ میں جمع ہو سکے۔

اس سنگین بدعنوائی سے کم و بیش ایکیسئن نے 40 لاکھ روپے کمائے جو اس کی اپنی جیب میں گئے ، جب یہ اطلاع ذرائع ابلاغ کے ذریعے عام ہونے لگی تو چیف انجینئر کے ڈی اے نے ایک نمائشی انکوائری کمیٹی تشکیل دی جو آج تک کام نہیں کر سکی اور اس کمیٹی نے انکوائری سرد خانے میں ڈال دی ، بعض ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ اس بد عنوانی کے پیچھے اعلیٰ افسران کا بھی ہاتھ ہے اور انہیں اس روڈ کٹنگ کی رشوت میں سے بھاری نذرانے حصے کے طور پر پہنچائے گئے تھے۔

انتظامیہ نے اسی سبب مجرمانہ خاموشی اختیار کر لی اور دکھاوے کے طور پر میڈیا کے دباو میں ایک کمیٹی بنائی تھی ، حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس بڑی کرپشن کے بعد انعام کے طور پر اسی ایکسیئن کو سرجانی ڈویژن میں بھی ایکسیئن تعینات کر دیا گیا ، اور سرجانی میں بھی یہ ہی ہوا کہ ایکسیئن نے بغیر چالان کے واٹر بورڈ کے ٹھیکیدار کو بھاری نذرانہ وصول کر کے روڈ کٹنگ کی زبانی اجازت دے دی۔

اس ایکسیئن سے جب میڈیا نے رابطہ کیا تو اس نے کہا کہ یہ روڈ کٹنگ تو سرجانی میں گرین لائن بس منصوبے کا حصہ ہے، جب اس سے کہا گیا کہ میڈیا کے پاس تصاویر اور ویڈیوز ہیں کہ یہ روڈ کٹنگ علاقے کے اندر ہو رہی ہے نہ کہ سرجانی کی مرکزی سڑک پر جس کے جواب میں کچھ دیر بعد موصوف کے ایک کارندے نے فون کر کے کہا کہ دراصل یہاں عوام جمع ہیں اور وہ مشتعل ہیں کہ روڈ کٹنگ کرنے دی جائے ، بس ہم اسی لیے کچھ نہیں کر سکتے کیوں کہ مشتعل عوام ہم پر حملہ کر دیں گے۔

جب ان سے کہا گیا کہ یہ آپ کا فرض ہے کہ آپ قانون نافذ کرنے والے اداروں سے رابطہ کر کے یا پولیس کی مدد سے اس غیر قانونی روڈ کٹنگ کو رکوائیں تو اس نے پہلے کہا کہ اتنی جلدی ہم یہ نہیں کر سکتے ، پھر کہا کہ ہم نے رابطہ کیا  مگر پولیس اور رینجرز ہماری مدد کو تیار نہیں، یعنی وہ بضد تھے کہ بس اس کام کو جاری رہنے دیا جائے، انہوں نے کہا کہ آپ ہمارے ایکسیئن صاحب سے آکر مل لیں تو آپ کو مطمئن اور خوش کر دیں گے، جس کا واضح مطلب تھا کہ موصوف رشوت کی پیش کش کر رہے تھے۔

انتظامیہ نے اس غیر قانونی روڈ کٹنگ کے حوالے سے چلنے والی خبروں کا کوئی نوٹس لیا نہ کوئی کاروائی ان کرپٹ افسران کے خلاف کی جا سکی ، اس سے واضح ہوتا ہے کہ اداروں میں موجود اعلی افسران بھی اپنا حصہ وصول کر کے خاموش تماشائی بن جاتے ہیں، ایسے میں جب عدلیہ ایکشن لیتی ہے تو حکومت سندھ کو سخت ناگوار گزرتا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ عدلیہ ہمیں کام نہیں کرنے دیتی اور مداخلت کرتی ہے۔

یعنی عدلیہ بھی کرپشن پر خاموش تماشائی بن جائے، تاہم عدلیہ خصوصاََ سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس پر ایکشن لیا ہے اور کراچی کے شہری اداروں میں جاری غیر قانونی دھندوں پر سخت برہمی کا اظہار کیا ہے۔

عدالتی ریمارکس عوامی ترجمانی کرتے نظر آرہے ہیں، تاہم عدلیہ کو بھی احکامات دینا ہوں گے ، ابھی ادارہ ترقیات کی باری ہی نہیں آئی ہے ، ابھی تو سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ،پاکستان ریلوئے اور کے ایم سی ، تک ہی بات چل رہی ہے ، جس دن ’’ کے ڈی اے‘‘ کی باری آئے گی تو یقیناََ ’’کے ڈی اے ‘‘ کے بھی کئی اعلیٰ افسران گھر جائیں گے جس طرح ایس بی سی اے کے افسران کو ہٹانے کا عدالت نے حکم دیا تھا ۔

روڈ کٹنگ کرپشن ایک ایسا زہر ہے جو اداروں کے سرکاری افسران و انجینئرز کی رگوں میں خون بن کر دوڑ نے لگا ہے ، عدالتیں اگر شہر میں ہونے والی روڈ کٹنگ کی پیمائش اور اس کی مد میں جاری چالان کا موازنہ ماہرین سے کروائیں تو ساری حقیقت عدلیہ پر عیاں ہو جائے گی اور اس مد میں کروڑوں کی کرپشن کرنے والے افسران گرفت میں ہوں گے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان بالکل درست سمت میں کام کر رہی ہے تاہم ادارے سپریم کورٹ سے تعاون کرنے کے بجائے اسے دھوکہ دیتے ہیں، کبھی کرپٹ افسران کو ہٹانے کے حکم پر دھوکہ دیتے ہوئے جعلی معطلی کا حکم نامہ جاری کیا جاتا ہے اور عدالت میں جمع کرا دیا جاتا ہے جبکہ در حقیقت وہ معطل شدہ افسران اپنا کام کر رہے ہوتے ہیں۔

اسی طرح گزشتہ دنوں کے ڈی اے کے دو عہدے رکھنے والے کرپٹ افسر عبدلقدیر منگی کو ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے ہٹا کر انہیں سندھ حکومت کے محکمہ بلدیات میں رپورٹ کرنے کا حکم دیا گیا تھا اور ڈائریکٹر لینڈ کے عہدے پر آصف میمن کو تعینات کیا گیا تھا اور دوسرے عہدے ممبر فنانس پر کسی کو تعینات نہیں کیا گیا تھا تاہم عبدلقدیر منگی نے اس نوٹیفکیشن پر عمل نہیں کیا اور وہ بدستور ممبر فنانس کے عہدے پر اب تک موجود ہیں اور غیر قانونی طور پر سرکاری امور بھی انجام دے رہے ہیں۔

جب اعلیٰ افسران غیر قانونی کام خود کر رہے ہیں تو یقیناََ وہ کرپشن کی سرپرستی بھی کرتے ہیں ، اس وجہ سے اداروں میں کرپشن ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی اور نئی نئی مافیاز وجود میں آ رہی ہیں جس طرح روڈ کٹنگ مافیا وجود میں انہیں اعلیٰ افسران کے تعاون سے آ چکی ہے۔

Related Posts