مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پاکستان میں اسوقت سیاسی ہلچل کورونا کی دوسری لہراور حکومت کی انتقامی جذبوں پر معین سوچ عروج پر ہیں۔ پاکستان کے قیام کے بعد یہ پہلی حکومت ہے جواپوزیشن کو ایندھن فراہم کرتی ہے۔

صبح سے شام تک پریس کانفرنس، حکومتی ترجمانوں کی تلخ گفتگو اور اپوزیشن کے جواب کا سلسلہ جاری ہے لیکن ملک کی ترقی کو کوئی ترجیح دینے کو تیار نہیں۔

حکومت اس میں تو حق بجانب ہے کہ کورونا کی دوسری ظالم لہر کی موجودگی میں جلسے نہ ہوں لیکن پی ڈی ایم نے اس پر ہٹ دھرمی کی سیاست اپنا کر حکومت کے بجائے عوام کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔

حکومت مقدمات بنا کر انتقام کی آگ تو بجھا رہی ہے لیکن اس کی ٹھوس حکمت عملی نہ ہونے سے ملک بھر میں رٹ کی بات زبان عام ہے۔

ادھر کراچی اور سندھ کی سیاست کا رخ کریں تو کراچی پر ترقی کا سفر صرف اجلاسوں اور اعلانات تک محدود ہے۔ سیاست میں طلاطم کی کیفیت ضرور ہے۔ چوہدری نثار کی جاتی امراء آمد، چوہدری برادران کی آمد، آصف زرداری کا نواز شریف کو تیسری بار فون، ایم کیو ایم کے وفد، مختلف سیاسی پنڈتوں کی جاتی امراء آمد محض تعزیت نہیں تھی بلکہ سندھ میں ایم کیو ایم کی بدلتی زبان، مصطفی کمال کا مستقل پیکیج پر خیرات نہ لینے کا بیان،ڈاکٹر سلیم حیدر اور آفاق احمد کے بیانات، مہاجرگرینڈ الائنس کا شوشہ، اسکے پیچھے بھی ایک راکٹ سائنس نظر آتی ہے۔

ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کی وفاقی حکومت کو تنبیہ کہ صرف اعلانات تک کراچی کو نہ رکھا جائے اور کراچی میں وزیر اعلیٰ سندھ اور اہم اداروں کی شرکت، وفاقی وزیر اسد عمر کا دوبارہ اعلان اسکے پیچھے ایم کیو ایم کا جارحانہ رویہ ہے۔

وفاق کا ایک اتحادی مینگل گروپ الگ ہوکر پی ڈی ایم کے ساتھ ہوچکا ہے۔ ق لیگ اور ایم کیو ایم اگر پلٹامار جائیں تو سیاست اور حکومتی سطح پر بساط پلٹ جائیگی۔

نواز شریف کی والدہ کے انتقال پر تحریک انصاف کے وفد کو بھی جانا چاہئے تھا لیکن شبلی فراز، شہباز گل، فیاض چوہان اور فردوس عاشق اعوان جیسے افراد اور انکی گفتگو کے بعد جو مسلسل تدفین اور اسکے بعد تک چلتی رہی یہ ممکن نہیں کہ مفاہمت کا راستہ نکلے۔

حکومتی بیانیہ کہ این آر او نہیں دیں گے سن سن کر عوام کے کان پک چکے ہیں۔ سب کچھ پچھلی حکومتوں پر ڈالنے کی باتیں بھی اب عوام کے لئے اہمیت نہیں رکھتیں۔

انہیں وزیر اعظم عمران خان سے مہنگائی میں کمی اور ریلیف چاہئے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں بھی کشیدگی بڑھ رہی ہے لیکن وفاق اور صوبائی حکومتیں بالکل سنجیدہ نظر نہیں آتیں۔

کراچی کے بلدیاتی اداروں میں ایک گومگو کی کیفیت ہے لیکن وہاں کے معاملات پر بھی اسٹیک ہولڈرز لب کشائی سے گریزاں ہیں۔ جماعت اسلامی کراچی اشوز پر کھل کر بول رہی ہےلیکن کے ایم سی اور بلدیاتی اداروں کے اشوز پر اسکی بھی خاموشی حیران کن ہے۔

تیسرا ماہ ہے کے ایم سی نے ابتک سوائے چند محکموں کے ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی نہیں کی ہے۔ دوسری جانب انوکھے واقعات ہو رہے ہیں جمیل فاروقی نامی کے ایم سی افسر نے ایک ملازم شہزاد انور کی تنخواہ روکی تو وہ انکے گال چومنے اور انہیں گلے لگانے پہنچ گیااسکے بعد انکشاف کیا کہ وہ کورونا کا مریض ہے۔

رپورٹ بھی ساتھ لایا تھا۔ اس کے خلاف ایف آئی آر درج کرادی گئی اور کوریج کرنے پر صحافی راشد کرار کے خلاف بھی رپورٹ درج کرادی گئی۔ جو حیرت انگیز ہے۔

اسی طرح احتساب عدالت میں مصطفیٰ کمال ریفرنس میں عدالت میں کورونا مریض گواہ پیش کردیا گیا۔ عدالت میں کھلبلی مچ گئی۔ اب کیا جج اور پولیس کے خلاف یا گواہ پیش کرنے والوں کے خلاف مقدمہ ہوگا یا اسکی رپورٹنگ کرنے والے بھی مقدمے میں شامل کئے جائیں گے۔

کورونا میں مبتلا شہزاد انور اور کورونا گواہ دونوں کا جرم ایک ہے۔ بہر حال یہ انصاف کرنے والے جانیں۔ اللہ جمیل فاروقی اور دیگر کو صحت دے اور محفوظ رکھے۔

بات ہو رہی تھی سندھ کے شہری علاقوں کی ایم کیو ایم کے لئے ایک بڑا چیلنج یہ ہے کہ نہ 162ارب کے پیکیج پر عمل ہوا نہ 1100ارب پر اور نہ حیدر آباد یونیورسٹی کا اب تک وجود ہے جسکا سنگ بنیاد حیدر آباد کے بجائے اسلام آباد پرائم منسٹر ہاؤس میں رکھا گیا تھا۔

کے ایم سی میں ایڈمنسٹریٹر کراچی کو بھی اے ڈی پی کے فنڈز نہیں دیئے گئے۔ تنخواہوں کی رقوم تنخواہوں میں اضافے کے بعد بڑھنے والی رقم کے حوالے سے نہیں دی جا رہیں جسکی وجہ سے شارٹ فال ہے۔

کے ایم سی کے ریکوری محکموں کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے جسکی وجہ سے اون ریسورسزبھی نہیں ہیں

۔ ادارے کو پاؤں پر کھڑا کرنے کے لئے انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے۔ کے ایم سی میں افسران نے اسکا بیڑا اٹھایا ہے۔کے ایم سی امیج ریسٹوریشن کمیٹی (آرگنائزیشن) نے کے ایم سی کے لئے 24نکاتی ریکوری بڑھانے کا فارمولہ دیا ہے۔

ایڈوائزری کونسل کے اراکین جاوید رحیم، محمد شاہد، واثق فریدی، ڈاکتر محمد فاروق، احسن مرزا، محمد رضوان خان، روشن الطاف و ڈاکٹر سراج کے علاوہ KIRCکے اراکین سلمی جبین، عبدالعزیز، محمود چوہدری، فرحانہ نسیم، صبیح احمد، عبدالقیوم، جاوید ارشاد، نعیم جمال، ضیاء الدین صابر، زینت علی نے کے ایم سی کو منافع بخش ادارہ بنانے کے لئے لائحہ عمل دیا جو خوش آئند ہے۔

اس پر عمل درآمد کے لئے ایڈمنسٹریٹر، حکومت سندھ کو نوٹس لیتے ہوئے عمل کرانے اور وسائل کی فراہمی کے لئے کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے جو طلوع سحر کا آغاز ہے۔

Related Posts