جنرل (ر) پرویز مشرف: سزائے موت فیصلے کا قانونی پس منظر اور وجوہات

مقبول خبریں

کالمز

zia-2
5560 روپے کا ایک کلو آٹا
zia
برسوں ایران میں رہنے والی اسرائیلی جاسوس خاتون کی کہانی
Philippines, Pakistan, National Day, Dr. Emmanuel Fernandez, bilateral ties, diplomacy, climate change, development, peace, trade, education, cultural exchange, sustainable future, regional cooperation, Mabuhay, Filipino community, Islamabad celebration, soft power, South-South partnerships, innovation, resilience, post-colonial nations, mutual respect, global south
مشترکہ جدوجہد اور روشن مستقبل کی ایک خوبصورت تقریب

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Pervez-Musharraf
Pervez-Musharraf

سابق آرمی چیف و سابق صدرِ پاکستان جنرل (ر) پرویز مشرف کو سنگین آئین شکنی کیس میں آج خصوصی عدالت نے سزائے موت کا حکم سنا دیا ہے۔

خصوصی عدالت کے سربراہ و چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس وقار سیٹھ نے سنگین آئین شکنی کیس میں سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف مختصر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ پرویز مشرف نے 3 نومبر 2007ء کو آئینِ پاکستان کی خلاف ورزی کی۔

آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 6 کو توڑنے کا جرم ثابت ہونے پر عدالت کے 3 رکنی بینچ میں سے 2 ججز نے سزائے موت کے فیصلے پر اتفاق کیا جس پر آج ہی فیصلہ سنا دیا گیا۔

سزائے موت کے خلاف اپیل کا حق:

دیکھا جائے تو سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو سزائے موت کے خلاف اپیل کا حق ہے لیکن یہ اپیل اسلام آباد ہائی کورٹ یا ملک کی کسی بھی ہائی کورٹ میں دائر نہیں کی جاسکتی۔

سابق صدر پرویز مشرف کے کیس کو پہلے ہی ملک کی تین اعلیٰ عدالتیں دیکھ رہی تھیں جن میں سے ایک وہ خصوصی عدالت ہے جس نے آج سزائے موت سنائی۔ دوسری اسلام آباد ہائی کورٹ ہے جبکہ تیسری سپریم کورٹ آف پاکستان ہے جس کی طرف سے فی الوقت کوئی ازخود نوٹس نہیں لیا گیا۔

سابق آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف کے پاس اپیل کے لیے 30 روز کا وقت ہے جبکہ اپیل دائر کرنے کے لیے ان کی وطن واپسی بھی ضروری ہے اور اپیل صرف سپریم کورٹ میں ہی دائر کی جاسکتی ہے۔

اپیل صرف سپریم کورٹ میں ہی کیوں دائر کی جاسکتی ہے؟

جس عدالت نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف سزائے موت سنائی، وہ ہائی کورٹ سے کسی بھی طرح کم نہیں کیونکہ جسٹس وقار احمد سیٹھ اس کی سربراہی کر رہے تھے جو چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ ہیں۔

آئینِ پاکستان کے تحت ملک کی کسی بھی عدالتِ عالیہ کے فیصلے کو اسی درجے کی کسی اور عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا، نہ اس کے خلاف اپیل کی جاسکتی ہے۔ اس لیے اپیل کی سماعت کا حق صرف سپریم کورٹ کو ہے۔

مقدمے کا مدعی کون؟

آج سے تقریباً 6 سال قبل سابق حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) نے سابق آرمی چیف پرویز مشرف پر الزام لگایا کہ انہوں نے اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے 3نومبر 2007ء کو ملک کا آئین معطل کردیا۔

نومبر 2013ء میں پرویز مشرف کے خلاف قائم ہونے والے آئین شکنی کیس کے ملزم جنرل (ر) پرویز مشرف پر الزام ہے کہ انہوں نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کی جس سے آئین شکنی عمل میں آئی۔

آئین شکنی اتنا سنگین الزام ہے کہ ملکی قانون کے تحت اس کی سزا صرف موت ہے۔ اس لیے جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف سزا کی اپیل کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) نے استدعا کی کہ انہیں سزائے موت سنائی جائے۔

خصوصی عدالت کا قیام

سنگین آئین شکنی کیس کی سماعت کے لیے خصوصی عدالت کا قیام 20 نومبر 2013ء کو عمل میں لایا گیا جس کے بعد سابق صدرِ پاکستان جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف مقدمے کی سماعت شروع ہوئی۔ 

مسلم لیگ (ن) کے لگائے گئے الزامات کا تجزیہ کرنے کے بعد انہیں درست سمجھتے ہوئے خصوصی عدالت نے 31 مارچ 2014ء کو سابق صدر پر فردِ جرم عائد کی جبکہ انہیں جون 2016ء میں مفرور قرار دیتے ہوئے گرفتاری کا حکم بھی دیا گیا۔

پرویز مشرف کا فیصلہ 6سال بعد کیوں؟ 

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے فیصلے کو 6 سال کیوں لگ گئے؟ کیا یہ فیصلہ پہلے صادر نہیں کیا جاسکتا تھا؟ اگر سابق صدر مجرم ہی تھے تو انہیں سزائے موت پہلے بھی تو دی جاسکتی تھی؟

اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ پرویز مشرف کیس کی سماعت کے لیے بنائی گئی خصوصی عدالت کا ججز بینچ کم از کم 6 بار بنا اور 5 بار ٹوٹا۔ ججز کو بار بار بدلا جاتا رہا اور مقدمے کی سماعت مسلسل متاثر ہوتی رہی۔

ہمارا اگلا سوال یہ ہے کہ ججز کیوں بدلے گئے؟ کیا مدعی اتنا اثر و رسوخ رکھتا تھا یا ججز کو فیصلے کرنے کا اہل نہیں سمجھا گیا؟ اس کے جواب میں ہمارا عدالتی نظام خاموش ہے۔

اگر اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لیے تجزیہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ججز بھی فیصلے کے اہل تھے اور جنرل پرویز مشرف کا کیس کوئی اتنا پیچیدہ بھی نہیں تھا کہ اس کا فیصلہ کرنے میں 6 سال لگتے۔

پرویز مشرف کیس، ریاستی ستونوں کے مابین دلائل کی جنگ

کیس کی اہمیت اور افادیت کے پیش نظر ججز کو فیصلہ کرنے میں شدید دشواری کا سامنا رہا۔ پرویز مشرف کے خلاف کیس کم از کم دو ریاستی ستونوں کے مابین دلائل کی جنگ تھی۔ ان میں سے ایک مقننہ یعنی حکومت اور اپوزیشن دونوں تھے جبکہ دوسرا ریاستی ستون خود عدلیہ تھا۔

سابق صدر پر الزام ہے کہ انہوں نے آئین شکنی کا ارتکاب کرکے جنرل (ر) پرویز مشرف نے عدلیہ کے پورے نظام کو سمیٹ کر اپنی جیب میں رکھ لیا تھا، عدالتوں کو صرف جنرل مشرف کو صدر بنانے کے لیے آئین سے ہٹ کر فیصلے کرنے پڑے۔

اگر ہم اس ریاستی ستونوں کی جنگ میں فوج کو شامل کریں تو فوج پر بھی بعض سیاسی رہنماؤں نے مسلسل یہ الزام لگایا کہ وہ اپنے سابق آرمی چیف کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن پاک فوج نے ہمیشہ اس الزام کو یکسر مسترد کیا۔

پاک فوج نے جنرل پرویز مشرف کا معاملہ جوں کا توں عدالتوں کے سپرد کرتے ہوئے کیس سے مکمل طور پر دستبرداری کا اعلان کیا اور یہ مؤقف اپنایا گیا کہ جنرل پرویز مشرف کا ٹرائل ایک ملزم کی حیثیت سے کیا جائے، نہ کہ سابق آرمی چیف سمجھتے ہوئے۔

خصوصی عدالت کا بینچ 6 بار بنا جس کے باعث مقدمہ جسٹس فیصل عرب، جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس طاہرہ صفدر کے ساتھ ساتھ جسٹس وقار احمد سیٹھ نے سنا۔ مجموعی طور پر سماعت کرنے والے ججز کی تعداد 7 تھی۔ 

 

 

Related Posts