نیب میگا کرپشن کیسز کو منطقی انجام تک پہنچانے میں کیوں ناکام ہو رہا ہے؟

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

نیب میگا کرپشن کیسز کو منطقی انجام تک پہنچانے میں کیوں ناکام ہو رہا ہے؟
نیب میگا کرپشن کیسز کو منطقی انجام تک پہنچانے میں کیوں ناکام ہو رہا ہے؟

کراچی: ایک خود مختار اور آئینی ادارہ ہونے کے باوجود قومی احتساب بیورو (نیب) ملک میں میگا کرپشن کے مقدمات کو حل کرنے میں ناکام ہو رہا ہے، کیونکہ کئی بڑے بڑے افراد سنگین الزامات کے باوجود ضمانت پر ہیں۔

نیب اپنی آئینی ذمہ داری کے مطابق کسی بھی جرم کے خلاف ایکشن لے سکتا ہے۔ معاشی دہشتگردی اور مالیاتی جرائم کی روک تھام کے لیے نیب کا ادارہ قائم کیا گیا تھا۔ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے 16 نومبر 1999 کو ملک سے کرپشن کے خاتمے کے لیے قومی احتساب بیورو جیسے ادارے کو قائم کیا تھا۔

آئین احتساب عدالتوں کو تفتیش شروع کرنے ، مالیاتی بدانتظامی ، معاشی دہشتگردی اور بدعنوانی کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کا اختیار دیتا ہے۔

چیئرمین کی توسیع کا مسئلہ:

حال ہی میں ملک نے چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے کا مشاہدہ کیا۔ چیئرمین نیب کی مدت ملازمت 8 اکتوبر کو ختم ہو گئی تھی تاہم حکومت نے پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر نیب ترمیمی آرڈیننس 2021 کے تحت جسٹس (ر) جاوید اقبال کی مدت ملازمت میں توسیع کردی جسے بڑے پیمانے پر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور اس آرڈیننس کے نفاذ کو مختلف ہائی کورٹس میں چیلنج کیا گیا ہے۔

 آئین کے تحت نئے چیئرمین نیب کی تعیناتی کے لیے وزیراعظم عمران خان کو قائد حزب اختلاف شہباز شریف سے مشاورت کرنی چاہیے تھی۔ تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ چونکہ شہباز شریف خود نیب کے ملزم ہیں اس لیے ان سے مشاورت نہیں کی جاسکتی، تو یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ وزیراعظم عمران خان ، کے پی کے میں پی ٹی آئی حکومت کے آخری دور میں ہیلی کاپٹر کے مبینہ غلط استعمال کے حوالے سے نیب انکوائری کا سامنا کر رہے ہیں۔

 میگا کرپشن کیسز۔

 ایل این جی کیس ، اوگرا چیئرمین تقرری کیس ، جعلی بینک اکاؤنٹس کیس ، پیراگون ہاؤسنگ سوسائٹی اسکینڈل ، پی آئی اے اپائنٹمنٹ کیس اور دیگر ذرائع آمدن سے زیادہ اثاثوں کے کئی بڑے کرپشن کیسز ہیں جو خاص پر نیب کی جانب سے حزب اختلاف کے رہنماؤں پر بنائے گئے ہیں۔ مذکورہ بالا ریفرنسز میں نامزد بڑے بڑے لوگوں کو ضمانتیں مل چکی ہیں اور اب تک کوئی خاص وصولی بھی نہیں ہوئی ہے۔

 مالی وصولی۔

 نیب کا ادارہ اپنی تشکیل سے اب تک سیاستدانوں ، بیوروکریٹس ، سابق فوجی افسران اور وائٹ کالر کرائم میں ملوث افراد سے 240 ارب روپے وصول کرچکا ہے۔ سابق صدر پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ نیب کو کرپٹ لوگوں میں خوف خدا پیدا کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔

تنقید۔

قومی احتساب بیورو کو مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور سپریم کورٹ کی جانب سے بدانتظامی پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ حزب اختلاف کی جماعتوں کا کہنا ہے کہ نیب کو ان کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ حکومتی وزراء الزامات کے باوجود کام کر رہے ہیں۔

 ماضی میں سابق چیف جسٹس ، جسٹس جواد ایس خواجہ نے اس ادارے کو ‘پلی بارگین’ کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور اسے ‘ادارہ جاتی بدعنوانی’ قرار دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ نیب کا ادارہ بدعنوانی میں ملوث افراد کے ساتھ عدالت کے باہر تصفیے کرتا ہے اور طے شدہ رقم جمع کرانے پر ملزم کو رہا کردیتا ہے۔ جسٹس خواجہ نے عدالتی کارروائی کے دوران کہا تھا “میرا ماننا ہے کہ نیب کے کچھ اعلیٰ عہدیدار گرفتاری سے قبل بااثر ملزمان کو تنبیہ کردیتے ہیں کہ انہیں فرار ہونے کے لیے کافی وقت دیا جائے گا۔

براڈ شیٹ کیس کو غلط طریقے سے ہینڈل کرنے پر بھی نیب کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ اس کیس میں نیب کو 28 ملین ڈالرز اس شخص کو ادا کرنا پڑے جس پر لندن کی بین الاقوامی ثالثی عدالت (ایل سی آئی اے) میں فراڈ کے کیسز زیرسماعت ہیں۔

Related Posts