کراچی میں طیارہ حادثہ، پائلٹس کے جعلی لائسنس اور سرکاری اعلانات، حقیقت کیا ہے؟

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

کراچی میں طیارہ حادثہ، پائلٹس کے جعلی لائسنس اور سرکاری اعلانات، حقیقت کیا ہے؟
کراچی میں طیارہ حادثہ، پائلٹس کے جعلی لائسنس اور سرکاری اعلانات، حقیقت کیا ہے؟

یہ کہانی رواں برس  جمعۃ الوداع سے شروع ہوئی جب قومی ائیر لائن (پی آئی اے) کا ایک طیارہ کراچی میں گرا  اور اس حادثے میں 97 قیمتی جانیں گئیں جبکہ 2 افراد خوش قسمتی سے زندہ بچ گئے۔

طیارہ حادثے کے بعد وزارتِ ہوابازی نے اعلان کیا کہ پائلٹس ہی حادثات کے ذمہ دار ہوتے ہیں کیونکہ متعدد پائلٹس کے لائسنس جعلی ہیں تاہم بعد میں صورتحال اِس کے برعکس نکلی اور آج پوری قوم حیران وپریشان ہے کہ حقیقت کیا ہے؟

آئیے پی آئی اے کی اس پرواز کے اندوہناک حادثے سے یہ افسوسناک کہانی شروع کرتے ہیں جس نے وزارتِ ہوابازی کو متنازعہ بیان دینے پر مجبور کردیا تاکہ ہم یہ جان سکیں کہ پردے کے پیچھے کون کون سے سربستہ راز چھپے ہوئے ہیں۔

جمعۃ الوداع کا طیارہ حادثہ

رواں برس 22 مئی کو یہ افسوسناک خبر آئی کہ پی آئی اے کا طیارہ ائیر بس اے 320 کراچی ائیرپورٹ کے قرب و جوار میں گرکر تباہ ہوگیا ہے جس کی زد میں رہائشی مکانات بھی آ گئے۔

بعد ازاں یہ تصدیق کی گئی کہ طیارے پر سوار 97 افراد جاں بحق ہوگئے اور 2 زندہ بچے جس کے بعد حادثے کی وجوہات جاننے کیلئے انکوائری اور تحقیق و تفتیش کا سلسلہ شروع کیا گیا۔

یہ حادثہ اتنا بڑا تھا کہ کچھ دن تک مسلسل اس پر مختلف خبریں آتی رہیں، ملبہ اٹھایا جاتا رہا، میتیں نکالی جاتی رہیں اور سیاسی و سماجی رہنما مختلف بیانات داغتے دکھائی دئیے۔

تحقیقات اور پیشرفت

کچھ ہی روز بعد یعنی 28 مئی کو پی آئی اے طیارے کا کاک پٹ وائس ریکارڈ ملبے کے نیچے سے برآمد ہوگیا جو ائیر کرافٹ ایکسیڈنٹ تحقیقاتی بورڈ کے حوالے کیا گیا۔ 

بعد ازاں 29 مئی کے روز لواحقین کو میتوں کی حوالگی شروع ہوئی جس میں مختلف شکایات بھی سامنے آئیں۔ سوشل میڈیا پر بھی ایسے بیانات سامنے آئے کہ لواحقین پریشان ہیں کہ اپنے پیاروں کی میتیں کہاں تلاش کریں؟

اسی روز یعنی 29 مئی کو ہی وزیرِ اعظم عمران خان نے یہ فیصلہ کیا کہ طیارہ حادثے کی رپورٹ پبلک کی جائے گی تاکہ حادثے کے ذمہ داروں کا تعین کرکے انہیں سزا دی جاسکے۔

پی آئی اے کی نجکاری کا معاملہ 

رواں ماہ 2 جولائی کو یہ خبر بھی آئی کہ وفاقی حکومت پی آئی اے کو پرائیوٹائز کرنا چاہتی ہے اور پی ٹی آئی حکومت  نے نجکاری پر کام کا آغاز بھی کردیا ہے۔

قبل ازیں ممکنہ پرائیوٹائزیشن پر ماہرِ معاشیات جون میں ڈاکٹر قیصر بنگالی نجکاری کے حوالے سے بیان دے چکے تھے۔ قیصر بنگالی نے کہا کہ پی آئی اے کے اثاثوں کی نجکاری نہ کی جائے تاہم انتظامیہ پرائیوٹائز کی جاسکتی ہے کیونکہ حکومت کو کے الیکٹرک کی تباہی سے کچھ نہ کچھ سیکھنا چاہئے۔ اندھا دھند نجکاری نت نئے مافیاز کو جنم دے سکتی ہے۔

ذمہ دار کون؟ وزیرِ ہوابازی کا بیان 

تحقیقات کی ابتدائی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ طیارے کا کپتان ہی حادثے کا اصل ذمہ دار تھا وفاقی وزیرِ ہوابازی غلام سرور خان نے قومی اسمبلی میں بیان دیا کہ کپتان کی پرواز کے دوران اہلیہ سے گفتگو جاری تھی۔

غلام سرور خان نے کہا کہ کورونا وائرس کپتان کے اہلِ خانہ کو متاثر کرچکا تھا اور کپتان کی گفتگو کورونا وائرس کے بارے میں تھی۔ اس سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ شاید کپتان کی توجہ پرواز پر نہ رہی ہو۔ 

افسران کے خلاف کریک ڈاؤن 

دوسری جانب 2 جولائی کے روز ہی پی آئی اے نے نااہل افسران کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کردیا۔ فلائٹ سروس کے اسسٹنٹ منیجر خالد محمود جدون کی گریجویشن کی سند جعلی نکلی جس پر انہیں برطرف کردیا گیا۔

قومی ائیر لائن کے طیاروں کی بیرونِ ملک پروازوں پر پابندی عائد تھی جس کے دوران نااہل افسران کا پتہ چلایا گیا اور انہیں عہدوں سے فارغ کرنے کیلئے کارروائی شروع کی گئی۔ 

مشکوک لائسنسز کا معاملہ اور پابندی 

پی آئی اے نے اپنے 426 میں سے 150 پائلٹس کے لائسنس پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا۔ دنیا بھر میں شور مچ گیا کہ مشکوک تعلیمی اسناد رکھنے والے پائلٹس رشوت دے کر پاکستان کی قومی ائیر لائن میں بھرتی ہوئے۔

وفاقی وزیر غلام سرور نے فرمایا کہ ہمارے 40 فیصد پائلٹس مشکوک لائسنسز رکھتے ہیں۔ کل 860 میں سے 262 لائسنسز جعلی ہیں جن کی برطرفی ضروری ہے۔

یورپی یونین کی سیفٹی ایجنسی برائے ایوی ایشن کے ساتھ ساتھ برطانوی سول ایوی ایشن اور امریکا سمیت متعدد ممالک نے قومی ائیر لائن پر پابندی عائد کردی۔

اگر ہم صرف یورپی یونین پر ہی غور کر لیں تو اس میں اٹلی، آسٹریا، کروشیا، بلغاریہ، پرتگال، پولینڈ، رومانیہ، فن لینڈ، جرمنی، فرانس، اسپین، یونان اور سویڈن سمیت 27 ممالک شامل ہیں جو قومی ائیر لائن کیلئے بڑا دھچکا تھا۔ 

امریکا  نے 9 جولائی کو پی آئی اے کی پروازوں پر پابندی عائد کردی۔ امریکی ٹرانسپورٹ ڈپارٹمنٹ نے قومی ائیر لائن کا اجازت نامہ بھی منسوخ کردیا۔ اعلامیے میں کہا گیا کہ پابندی پروازوں کی حفاظت پر خدشات کے باعث عائد کی گئی۔ اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا کہ پابندی کی بنیادی وجہ پائلٹس کے لائسنسز کا مشکوک ہونا ہے۔ 

پائلٹس کلیر اور اسناد درست قرار

بعد ازاں متعدد پائلٹس کو کلین چٹ دے دی گئی۔سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) نے غیر ملکی ائیر لائن کے 21 پاکستانی پائلٹس کو کلیر قرار دیا، گویا مذکورہ پائلٹس کے لائسنس جعلی نہیں ہوسکتے۔

سول ایوی ایشن نے یہاں تک کہا کہ تمام پائلٹس کے لائسنس اصلی ہیں یعنی قبل ازیں لائسنس جعلی ہونے کی تمام تر خبریں غلط قرار دے دی گئیں جس میں وزیرِ ہوابازی کا بیان بھی شامل ہے۔

دوسری جانب پاکستان ائیر لائن پائلٹس ایسوسی ایشن (پالپا) نے کہا کہ ہمارے کسی پائلٹ کا لائسنس مشکوک نہیں۔ لائسنس جعلی بھی نہیں ہیں۔ ڈائریکٹر جنرل سی اے اے نے عمان کو لکھے گئے خط میں اعتراف کیا۔

مذکورہ خط کے مطابق کسی پائلٹ کا لائسنس جعلی نہیں جبکہ پالپا نے کہا کہ وفاقی وزیر غلام سرور خان سمیت خود سول ایوی ایشن اتھارٹی اس تمام تر صورتحال کی ذمہ دار ہے کیونکہ ان کے اقدامات سے پائلٹس پر غلط بیانیہ پیدا ہوا۔

حقیقت کیا ہے؟

اب سوال یہ ہے کہ اگر پائلٹس کے لائسنس جعلی نہیں تھے تو عالمی سطح پر قومی ائیر لائن اور خود وطنِ عزیز پاکستان کا مذاق کیوں بنایا گیا؟ پابندی لگوا کر ملکی معیشت کا بھاری نقصان کرنے کی کیا ضرورت تھی؟

دوسری جانب قومی ائیر لائن پر پابندی کے باعث ایکسپورٹرز کو بھی مشکلات کا سامنا رہا۔ ہم ترک ائیر لائن سے امداد مانگتے پھر رہے ہیں جبکہ وہاں سے مثبت جواب بھی ملا، تاہم پی آئی اے پر پابندی نہ لگتی تو ہاتھ نہ پھیلانا پڑتا۔

تحریکِ انصاف کی حکومت انتہائی پریشان کن حالات کا شکار ہے اور قومی ائیر لائن کو متنازعہ بنا کر حکومت نے ایک نئی مصیبت مول لے لی ہے جس پر قوم کا ہر شہری سوال کرنے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔

کیا وزیرِ ہوابازی نے غیر ذمہ دارانہ بیان دیا، سول ایوی ایشن ، پالپا اور خود قومی ائیر لائن کی انتظامیہ اور پائلٹس کے حوالے سے بھی مختلف سوالات کیے جاسکتے ہیں جن کا فی الحال ہمارے پاس کوئی جواب نہیں تاہم اتنا یقین ضرور ہے کہ آنے والے وقت کے ساتھ ساتھ ہر بات واضح ہوتی چلی جائے گی۔ 

Related Posts