جنگ بندی کیلئے پاکستان اور بھارت کا معاہدہ اور خطے کا امن و استحکام

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

جنگ بندی کیلئے پاکستان اور بھارت کا نیا معاہدہ اور خطے کا امن و استحکام
جنگ بندی کیلئے پاکستان اور بھارت کا نیا معاہدہ اور خطے کا امن و استحکام

پاکستان اور بھارت کے مابین تعلقات برصغیر کی تقسیم کے وقت سے ہی کشیدہ ہیں جن میں وقت کے ساتھ ساتھ وقتی بہتری تو ضرور آئی لیکن دونوں ممالک میں پائیدار ہم آہنگی و رواداری کبھی قائم نہیں ہوسکی۔ 

گزشتہ روز بھی پاکستان اور بھارت کے مابین لائن آف کنٹرول اور دیگر سیکٹرز پر جنگ بندی پر اتفاق ہوا اور فیصلہ کیا گیا کہ 2003ء کی سیز فائر انڈراسٹینڈنگ پر من و عن عمل کیا جائے۔ آئیے مذکورہ فیصلے کے پاک بھارت تعلقات اور خطے کی مجموعی صورتحال پر اثرات کا جائزہ لیتے ہیں۔

پاک بھارت جنگ بندی سے مراد؟ 

آئے روز پاکستان کے شہریوں کو یہ خبریں سننے کو ملتی ہیں کہ لائن آف کنٹرول پر بھارتی فوج نے فائرنگ یا گولہ باری کی جس کے نتیجے میں پاکستان کا جانی نقصان ہوا ہے اور پاک فوج بھی بھارت کی توپوں کو خاموش کرانے کیلئے جوابی کارروائی کرتی ہے، جو ہمارے لیے کوئی نئی بات نہیں رہی۔

یہی وہ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی ہے جس کا ہمسایہ ملک بھارت مسلسل ارتکاب کررہا ہے جس کے نتیجے میں پاکستان کے ہزاروں شہری جاں بحق، معذور اور زخمی ہو گئے۔ جنگ بندی کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان یا بھارت ایک دوسرے پر حملہ نہیں کریں گے، لیکن اس کی خلاف ورزی کی جاتی ہے۔آئیے جنگ بندی معاہدے کے نکات کا جائزہ لیتے ہیں۔ 

جنگ بندی معاہدے کے نکات

پاک فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کا کہنا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین ڈی جی ایم اوز کی سطح پر ہاٹ لائن رابطہ اور مذاکرات ہوئے جن میں دیرپا اور باہمی امن و استحکام کیلئے پاکستان اور بھارت کے مابین اہم امور اور تحفظات کے حل پر اتفاق کیا گیا۔

آئی ایس پی آر بیان کے مطابق دونوں ممالک کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز نے ایل او سی اور دیگر سیکٹرز میں سیز فائر کے حوالے سے معاہدوں پر عملدرآمد کے عزم کا اعادہ کیا۔

مذاکرات کے دوران 24 اور 25 فروری کی درمیانی شب سے دونوں ممالک نے باہمی مفاہمت پر سختی سے عمل پیرا ہونے کا اعادہ کیا اور کسی بھی غیر متوقع صورتحال کو حل کرنے کیلئے بارڈر فلیگ میٹنگز کے نظام کو استعمال کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ 

ڈی جی آئی ایس پی آر کا بیان 

ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا ہے کہ سیز فائر کیلئے پاک بھارت افواج کے روابط 1987ء سے جاری ہیں۔ موجودہ رابطے کے نتیجے میں 2003ء کے سیز فائر کی انڈر اسٹینڈنگ پر سختی سے عملدرآمد کیا جائے گا۔

میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ سن 2003ء میں بھی ایل او سی پر جنگ بندی کیلئے معاہدہ ہوا تاہم سن 2014ء سے سیزفائر کی خلاف ورزیاں تیز ہونے لگیں، پھر 2003ء کے بعد سے اب تک 13 ہزار 500 سے زائد سیز فائر خلاف ورزیاں ریکارڈ پر آئیں۔

ترجمان پاک فوج میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ تاحال بھارت کی طرف سے سیزفائر معاہدے کی خلاف ورزیوں کے نتیجے میں 310 شہری جاں بحق جبکہ 1 ہزار 600 کے قریب زخمی ہوئے۔ 97 فیصدخلاف ورزیاں 2014ء سے 2021ء کے مابین ہوئیں۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق آج سے 2 سال قبل 2021ء میں سیزفائر کی سب سے زیادہ خلاف ورزیاں ہوئیں جبکہ 2018ء میں سیزفائر معاہدے کی خلاف ورزیوں کے نتیجے میں سب سے زیادہ جانی نقصان پہنچا۔ 

سیز فائر معاہدہ اور وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی 

وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کرکے جو یکطرفہ اقدامات کیے، ان کے برعکس سیز فائر معاہدے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ پاک بھارت سیز فائر معاہدہ 2003ء سب سے مؤثر ثابت ہوا۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہم سیز فائر کی خلاف ورزیوں پر عالمی برادری کو مسلسل اپنے تحفظات سے آگاہ کرتے رہے ہیں۔ یہ پیشرفت مثبت ہے جس پر بھارتی حکومت کو نیک نیتی سے عمل کرنا ہوگا۔ ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ آئندہ دنوں میں سیزفائر پر کیا پیشرفت ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ اگر بھارت سیز فائر معاہدے پر قائم رہے تو یہ خطے کی صورتحال پر ایک مثبت پیش رفت قرار دی جاسکتی ہے۔ بھارت کشمیر میں جس کامیابی کا متلاشی تھا، وہ نہیں ملی۔ کشمیر میں معاملات بگڑ رہے ہیں۔ اگر بھارت اپنے فیصلوں اور پالیسیوں پر نظرِ ثانی کرے تو سفارتکاری میں یہ ایک مثبت اقدام ہے۔ 

خطے کی مجموعی صورتحال پر پاک بھارت تعلقات کا اثر

ایک طرف پاکستان اپنی اسٹرٹیجک پوزیشن اور دفاعی صلاحیتوں کے باعث خطے کا اہم ترین ملک ہے جبکہ دوسری جانب بھارت ہے جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویدار ہے۔

کسی بھی خطے میں دو یا زائد ممالک کی آپس میں جنگ یا ان کے مابین صورتحال اتنی کشیدہ نہیں ہونی چاہئے جتنی کہ پاکستان اور بھارت کے مابین سال کے تقریباً ہر ماہ میں رہتی ہے اور ہر ماہ دونوں ممالک کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی بھی اب معمول کا حصہ بن چکی ہے۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت دو ایٹمی طاقتیں ہیں جن کے باہمی تعلقات کی کشیدگی دنیا بھر اور بالخصوص جنوبی ایشیائی ممالک کیلئے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ خطے کا ہر ملک پاکستان اور بھارت کو پر امن دیکھنا چاہتا ہے۔

اہم ترین بات 

اپنی گفتگو میں وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اگر بھارت سیز فائر معاہدے پر عملدرآمد کو یقینی بنائے تو یہ معاہدہ ایک اہم پیشرفت ہوگی۔بھارت کو چاہئے کہ نیک نیتی سے جنگ بندی معاہدے پر عمل کرے۔ 

پاکستان اور  بھارت کے عوام بھی جنگ کے حق میں نہیں ہیں۔ ہر عام انسان جنگ و جدل اور قتل و غارت سے دور رہنا چاہتا ہے، اس لیے جنگ بندی معاہدے پر عملدرآمد میں ہی دونوں ممالک کی ترقی و خوشحالی پوشیدہ ہے۔ 

Related Posts