نقیب اللہ محسودکے والد کیلئے ’موت انصاف سے پہلے پہنچ گئی‘

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

کراچی میں جعلی پولیس مقابلے میں شہید ہونے والے نقیب اللہ محسود کے والد انتقال کر گئے ہیں۔محمد خان محسود کینسر کے مرض میں مبتلا تھے اور راولپنڈی کے کمبائنڈ ملٹری اسپتال میں زیر علاج تھے۔محمد خان محسود کی میت کو آبائی علاقے وزیرستان منتقل کر دیا گیا ہے اور نماز جنازہ منگل کی صبح دس بجے ادا کی جائے گی۔

نقیب اللہ کے 60 سالہ والد محمد خان محسود کو عمر کے ایسے وقت میں بیٹے کی جدائی کا سامنا کرنا پڑا ہے جس میں والدین کو نوجوان بیٹے کی میت کو کندھا دینا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔

وزیرستان سے تعلق رکھنے والے خوبرونوجوان نقیب اللہ محسود کو جنوری 2017 میں کراچی میں ایک جعلی پولیس مقابلے میں قتل کیا گیا اس وقت کے ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی جانب سے پولیس مقابلے میں چار مبینہ دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا جن میں سے ایک نقیب اللہ محسود بھی تھے۔

ملیر کے ایس ایس پی راؤ انوار نے مبینہ طور پر نقیب کو 3 جنوری کو سہراب گوٹھ سے اٹھایا اور 12 جنوری کو مبینہ جعلی پولیس مقابلے میں قتل کر دیا۔ نقیب کے ورثاء اس کی لاش 5 دن تک ڈھونڈھتے رہے جو بالآخر چھیپا سینٹر سے ملی۔

سوشل میڈیا پر اس حوالے سے شدید ردعمل سامنے آنے کے بعد سپریم کورٹ نے واقعے کا ازخود نوٹس لے لیا جس پرایس ایس پی ملیر راؤ انواز روپوش ہو گئے جبکہ اس دوران انہوں نے اسلام آباد ایئرپورٹ سے دبئی فرار ہونے کی کوشش بھی کی تھی۔رائو انوارکچھ عرصے بعد خود ہی عدالت میں پیش ہو گئے جہاں سے ان کو گرفتار کیا گیا، تاہم بعد ازاں وہ ضمانت پر رہا کر دیے گئے۔

پاکستان کی تاریخ میں پولیس مقابلے میں مارے جانے والے سب سے مشہور کیس کو پاکستان کی عدلیہ ایک سال میں کیوں نہیں نمٹا سکی؟ اور اس سارے عرصے میں نقیب محسود کے خاندان پر کیا گزری اس کا انداز لگانا آسان نہیں ہے۔

رياست جن اجزائے ترکیبی سے وجود میں آتی ہے اس کا پہلا عنصر اس کے عوام ہوتے ہیںاور انہیں عوام کی فلاح و بہبود کے لیے ادارے تخلیق کیے جاتے ہیں اور مضبوط ادارے ایک مضبوط ریاست کی ضمانت ہوتے ہیں لیکن پاکستان میں معاملہ اُلٹ ہے یہاں عوامی اداروں کو جان بوجھ کر کمزور رکھا گیا ہے تاکہ عوام بے شعور اور بے اختیار رہیں کیونکہ یہ حکمت عملی اس ملک کے اصل حکمرانوں کے حق میں بہتر ہے۔

کراچی میں ہونیوالے پولیس گردی کے اس واقعے نے ملک بھر میں پشتونوں سمیت تمام باضمیر لوگوں کے ضمیر کو جھنجھوڑا اور وہ ماورائے عدالت اور قانون اس وحشیانہ اقدام پر سراپا احتجاج ہوئے۔

کراچی سمیت ملک میں کہیں بھی چلے جائیں آپ گناہ گار ناں بھی ہوں  تب بھی آپ کو پولیس کو دیکھ کر آپ ایک انجانے خوف میں مبتلا ہوجاتے ہیں، پولیس کو دیکھ کر تحفظ کا نہیں بلکہ لٹنے کا خوف زیادہ ہوتا ہے۔

کراچی میں فوسرز کے آپریشنز کے نتیجے میں عوام کی جان ان بھتہ خور قوتوں سے تو چھوٹ گئی پر ان کی جگہ اب پولیس نے لے لی ہے۔بھتے کا کھیل یقیناً استحصالی تھا پر اتنا خطرناک اور جان لیوا نہیں تھا جتنا کہ اس آپریشن کے نتیجے میں پولیس کے چارج سنبھالنے کے بعد ہوا ہے۔

کراچی میں پچھلے چند سالوں میں سیکڑوں پولیس مقابلے رپورٹ کیے گئے ، بندہ اردو بولنے والا ہے تو ایم کیو ایم کادہشتگرد، پشتون ہے توتحریک طالبان کا رکن ، بلوچ ہے توبلوچ علیحدگی پسند اور سندھی ہے تو سندھی علیحدگی پسند بنا کر پولیس مقابلے میں یا فل فرائی کردینا پولیس کیلئے محض ایک کھیل سے زیادہ کچھ نہیں۔

کراچی میں آج تک ہونیوالے سیکڑوں پولیس مقابلوں میں کتنے اصلی اور کتنے جعلی ہیں یہ کوئی نہیں جانتا تاہم جعلی مقابلوں کے نتیجے میں نقیب اللہ محسود جیسے ہزاروں مظلوموں کی زندگیوں کے چراغ بجھا دیے گئے اور غریب گھروں کے کفیل منوں مٹی تلے دب گئے ۔

نقیب اللہ محسودکے والد نے بیٹے کو قتل پر انصاف کیلئے ہر دروازہ کھٹکھٹایا تاہم محمد خان محسود انصاف کی خواہش دل میں لئے اس دنیا سے کوچ کرگئے ۔اگر نقیب کے قاتل قیمتی اثاثے رائواور اور عابدباکسر جیسے کردار کو کیفر کردار تک پہنچادیا جاتا تو شائد سانحہ ساہیوال جیسا واقعہ بھی پیش نہ آتا ۔

ہمارے ملک میں جب بھی کوئی طاقتور کسی جرم کا مرتکب ہوتا ہے تو یہ مقولہ ایک بار پھر شدت سے یاد آتا ہے کہ ،،پاکستان میں قانون مکڑی کا وہ جالا ہے، جس میں صرف کیڑے مکوڑے پھنستے ہیں،بڑے جانور اس کو پھاڑ کر نکل جاتے ہیں،،۔

Related Posts