مولانا خادم رضوی کی ریلی دھرنے میں تبدیل، کیا ملک دوبارہ بند ہوجائے گا؟

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

allama khadim hussain rizvi life story

پاکستان میں جمہوریت اور سیاست کے نام پر بے شمار لوگ قربان ہوئے تاہم مذہب کارڈ اور اسلام کے نام پر تن من دھن کی بازی لگانے والے لوگ آج بھی ملک میں سب سے زیادہ پائے جاتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ جب مولانا خادم حسین رضوی نے دھرنا دیا تو بہت سے افراد کی رائے یہ تھی کہ ٹی ایل پی جلد ہی ملک کی اسمبلی میں بیٹھی نظر آئے گی اور آج ہم جانتے ہیں کہ کم تعداد میں ہی سہی لیکن ٹی ایل پی کے نمائندے اسمبلیوں میں موجود ہیں۔

آج پیر کے روز راولپنڈی اسلام آباد سے ایک نئی خبر یہ آئی ہے کہ ٹی ایل پی کی فرانس میں توہین آمیز خاکوں کے خلاف ریلی دھرنے میں تبدیل ہو گئی اور تحریک لبیک کے کارکنان نے اسلام آباد کے ساتھ ساتھ راولپنڈی کے فیض آباد چوک پر دھرنا دے دیا۔

دھرنا دینے والے مظاہرین نے حکومتِ وقت سے مطالبہ کیا ہے کہ جب تک آپ فرانسیسی سفیر کو ملک بدر نہیں کردیتے، ہم دھرنا ختم کرکے گھروں کو واپس نہیں جائیں گے۔

ابھی تک مولانا خادم حسین رضوی خود بوجوہ دھرنے میں شریک نہیں ہوسکے، پھر بھی ہمارا سوال یہ ہے کہ مولانا خادم حسین رضوی کی یہ دھرنا تحریک کیا ایک بار پھر ملک بند کرانے کا سبب بن سکے گی؟ آئیے اس سوال کا جواب تلاش کرتے ہیں۔

ریلی اور دھرنے کا پس منظر

اتوار کے روز ٹی ایل پی (تحریکِ لبیک پاکستان) نے فرانس کے خلاف لیاقت باغ راولپنڈی سے لے کر فیض آباد تک ناموسِ رسالت ﷺ ریلی نکالی۔ ہزاروں افراد ریلی میں شریک ہوئے اور یہ رات گئے فیض آباد پل پر جا پہنچی۔

فیض آباد پل پر پہنچنے کے بعد شرکائے ریلی نے مولانا خادم حسین رضوی کی ہدایات پر دھرنا دیا ہوا ہے اور دھرنے کا پس منظر یہ بھی ہے کہ 2اور 3 سال قبل بھی یہی وہ جگہ تھی جہاں ٹی ایل پی نے پنجابی محاورے کے مطابق دھرنا دے کر حکومتِ وقت کو وقت میں ڈال دیا تھا۔

مولانا خادم حسین رضوی کون؟

ممتاز قادری جنہیں توہینِ رسالت کے مجرم کو قتل کرنے پر پھانسی کی سزا دی گئی، ان کی وفات سے قبل مولانا خادم حسین رضوی کے نام سے پاکستان کی اکثریت واقف نہیں تھی کیونکہ مولانا خادم حسین اس سے قبل کبھی سیاست میں نہیں آئے تھے۔

جب ممتاز قادری کو پھانسی دے دی گئی تو علامہ خادم حسین رضوی نے جو لاہور میں محکمۂ اوقاف کی مسجد میں سرکاری خطیب کے عہدے پر فائز تھے، کھل کر حکومت پر تنقید شروع کردی جو کسی بھی سرکاری ملازم کیلئے کوئی قابلِ قبول بات قرار نہیں دی جاسکتی۔

نتیجہ یہ نکلا کہ علامہ خادم حسین رضوی کو خطیب کے عہدے سے فارغ کردیا گیا۔ خادم حسین رضوی 1966ء میں پنڈی گھیب میں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم جہلم اور گجرات سے حاصل کی جس میں قرات اور حفظِ قرآن شامل ہیں۔

سن 1980ء میں خادم حسین رضوی نے لاہور کا رخ کیا اور درسِ نظامی سے 1988ء میں فارغ التحصیل ہوئے۔سن 1993ء میں عالمِ دین کے طور پر محکمۂ اوقاف پنجاب کے تحت خطیب تعینات ہوئے۔انہوں نے یتیم خانہ لاہور روڈ کے قریب مسجد رحمت اللعالمین میں بھی خطیب کے فرائض سرانجام دئیے۔

خادم حسین رضوی نے آگے چل کر تحریکِ لبیک پاکستان کی بنیاد رکھی جو الیکشن کمیشن آف پاکستان میں 26 جولائی 2017ء کو رجسٹر ہوئی تھی۔ سن 2017ء میں جب خادم حسین رضوی نے این اے 120 کے ضمنی انتخاب میں 7 ہزار ووٹ حاصل کیے تھے۔

ترجمان تحریکِ لبیک پاکتان کے مطابق مولانا خادم رضوی ضلع اٹک سے تعلق رکھنےو والے عالمِ دین ہیں جو عالمِ حدیث اور عربی و فارسی زبان پر عبور رکھتے ہیں۔ ٹریفک کے ایک حادثے کے دوران خادم حسین رضوی معذور ہو ئے جو اب سہارے کے بغیر نہیں چل سکتے۔ 

سخت گیر بیانیہ 

عام طور پر مولانا خادم حسین رضوی کو ایک سخت گیر اور قدامت پسند عالمِ دین سمجھا جاتا ہے جو سیاست کی راہ پر چل نکلا ہے، تاہم اس تاثر سے خود مولانا خادم حسین رضوی متفق نہیں ہیں۔

ٹی ایل پی کے بانی علامہ خادم رضوی وہیل چیئر تک محدود سہی، لیکن انہوں نے توہینِ رسالت کے قانون پر اپنی سیاست کی بنیاد رکھی ہے جو آج بھی ملک بھر کے مسلمانوں کیلئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔

جب مولانا خادم رضوی تقریر کرتے ہیں تو اندازِ بیان سخت رکھتے ہیں، ان پر مخالفین کو گالیاں دینے اور بد ترین زبان استعمال کرنے کا بھی الزام ہے۔ جب میڈیا انہیں کوریج نہ دے تو وہ سوشل میڈیا کو استعمال کرتے ہیں اور اس میں خاصے کامیاب بھی ہیں۔

بد زبانی اور گالیاں مولانا خادم حسین کی تقاریر کا اہم حصہ سمجھی جاتی ہیں۔ لوگ اس پر بھی واہ واہ کرتے نظر آتے ہیں اور وہ پی ٹی آئی، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سمیت سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ ایدھی فاؤنڈیشن جیسی سماجی تحریک کو بھی تنقید کا نشانہ بنا چکے ہیں۔

ملکی پالیسیوں اور سیاست کے اعتبار سے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مولانا خادم رضوی قومی سطح کے سیاستدان نہیں کہے جاسکتے کیونکہ ان کی تجاویز قابلِ عمل نہیں ہوتیں۔ توہینِ مذہب کے مرتکب ممالک کو مکمل طور پر ایٹم بم سے اڑا کر تباہ کرنے کی باتیں کرنے والے خادم رضوی تجزیہ کاروں کے مطابق جذباتی عالمِ دین تو ہوسکتے ہیں، وزارتِ عظمیٰ کے اہل امیدوار نہیں۔ 

دھرنے کی تازہ ترین صورتحال

پولیس اور تحریکِ لبیک کے کارکنان کے درمیان جھڑپیں وقفے وقفے سے جاری ہیں۔ پولیس بے دریغ کارکنان پر آنسو گیس اور لاٹھی چارج کا استعمال کررہی ہے۔

دوسری جانب ٹی ایل پی غور کر رہی ہے کہ جب تک مطالبات منظور نہیں کر لیے جاتے، دھرنا ختم نہ کیا جائے۔ ٹی ایل پی کے لاکھوں کارکنان فیض آباد پہنچ گئے ہیں جبکہ پولیس کی بھاری نفری کسی بھی ناخوشگوار صورتحال سے نمٹنے کیلئے تیار ہے۔ 

ملک بند ہونے کا خطرہ 

گزشتہ برسوں میں حکومتِ وقت نے مذہبی معاملے پر کھل کر آواز نہیں اٹھائی جس پر تحریکِ لبیک ملک کی اہم سیاسی جماعت بن کر ابھرنے میں کامیاب رہی کیونکہ اس نے عوام کے جذبات کی ترجمانی کی۔

کورونا وائرس کی ایس او پیز اور مظاہرین کے مطالبات سے قبل خود حکومتِ وقت کی مذہبی معاملات پر سنجیدگی بھی مولانا خادم رضوی کے دھرنے پر اثر انداز ہوسکتی ہے۔

عوام آج بھی مذہب کے نام پر کٹ مرنے کیلئے تیار ہوجاتے ہیں، یہ سوچے سمجھے بغیر کہ ٹی ایل پی یا دیگر سیاسی و مذہبی جماعتیں اپنی سیاست چمکانے کیلئے اس کا استعمال کرسکتی ہیں۔ اس لیے ٹی ایل پی کا دھرنا آج بھی ملک بند کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اگر ٹی ایل پی اس کا درست طریقے سے استعمال کرسکے، جیسا کہ اس نے ماضی میں کیا تھا۔ 

Related Posts