انسانی حقوق کا عالمی دن اور دُنیا بھر میں بد ترین مظالم کی لرزہ خیز داستان

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

انسانی حقوق کا عالمی دن اور دُنیا بھر میں بد ترین مظالم کی لرزہ خیز داستان
انسانی حقوق کا عالمی دن اور دُنیا بھر میں بد ترین مظالم کی لرزہ خیز داستان

آج سے ٹھیک 72 سال قبل یعنی 10 دسمبر 1948ء کے روز پیرس میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک تاریخ ساز قدم اٹھایا اور 30 شقوں پر مشتمل منشور کی منظوری دی جسے ہم انسانی حقوق کا چارٹر قرار دیتے ہیں۔

یہی وہ اقدام ہے جس کی یاد میں دنیا بھر میں انسانی حقوق کا دن ہر سال 10 دسمبر کے روز منایا جاتا ہے۔ آئیے انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقعے پر یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہمیں بحیثیت انسان کون کون سے بنیادی انسانی حقوق حاصل ہیں اور دنیا بھر میں ان حقوق کی خلاف ورزیاں کرتے ہوئے مظالم کی لرزہ خیز داستان کہاں کہاں رقم کی جارہی ہے۔

اقوامِ متحدہ کا انسانی حقوق کا چارٹر، مختصر جائزہ

عالمی ادارے اقوامِ متحدہ کا انسانی حقوق کا چارٹر کہتا ہے کہ بنیادی انسانی حقوق اور آزادیوں کے حوالے سے کوئی مذہبی، نسلی یا جنسی امتیاز روا نہیں رکھا جاسکتا۔ ہر انسان آزاد اور خود مختار ہے۔ سب کی عزتِ نفس مساوی ہے۔ ایک انسان دوسرے کو غلام یا لونڈی بنا کر نہیں رکھ سکتا۔

بنیادی انسانی حقوق کا چارٹر ہمیں بتاتا ہے کہ انسانی رویوں میں تعصب اور امتیازی سلوک کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ کوئی کسی کی تذلیل نہیں کرسکتا۔ کسی کے ساتھ مارپیٹ، تشدد یا قتل نہیں کرسکتا۔ ہر انسان اپنے اپنے مذہب کی پاسداری کا حق رکھتا ہے۔

کوئی بھی انسان اپنے خیالات اور عقائد پر عمل کرسکتا ہے، تنظیم سازی، سیاست اور رائے عامہ ہموار کرسکتا ہے۔ صحت، تعلیم اور روزگار پر ملک کے ہر شہری کا حق برابر تسلیم کیا جانا چاہئے۔ کوئی انسان کسی دوسرے کے حقوق سلب نہیں کرسکتا، نہ کسی کی آزادی میں کوئی رخنہ ڈال سکتا ہے۔ 

زندگی اور آزادی کا حق  اور مسئلۂ کشمیر و فلسطین 

سب سے بڑا حق جو انسان سے چھینا گیا ہے وہ اس کا اپنی مرضی سے زندگی گزارنے، جینے اور آزادی کا حق ہے۔ مثال کے طور پر مقبوضہ کشمیر اور فلسطین میں بھارت اور اسرائیل کے مظالم ہمارے سامنے ہیں۔

ہر روز کشمیریوں کو بد ترین مظالم کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ فلسطینیوں کو اسرائیل نے ان کے اپنے ہی گھروں سے بے دخل کردیا ہے جبکہ کشمیر میں بھارت اسی پالیسی پر عمل پیرا ہو کر نئے کالے قوانین نافذ کر رہا ہے۔

گزشتہ برس 5 اگست سے لے کر اب تک کشمیر پر بد ترین قید و بند، مواصلات کی پابندیاں اور بلیک آؤٹ نافذ ہے۔ نوجوانوں کو ہر روز شہید کیا جارہا ہے۔ فلسطین میں ماں کی لاش پر بیٹھے بچے کی تصویر نے پاکستان سمیت ہر مسلم اور غیر مسلم ملک میں موجود درد مند دلوں کو اپنی طرف کھینچ لیا تھا۔ ہر درد مند اس پر آنسو بہانے پر مجبور ہوگیا تھا۔ یہ بنیادی انسانی حقوق کی بد ترین خلاف ورزی نہیں تو اور کیا ہے؟

خواتین کے حقوق اور ہمارا معاشرہ 

عورت ماں ہے، بہن ہے، بیٹی ہے اور بیوی سمیت زندگی کے مختلف رشتوں میں ہر جگہ اپنی اہمیت کا احساس دلاتی اور انسانی رشتوں کو نئی تازگی، توانائی اور ایندھن فراہم کرتی نظر آتی ہے لیکن مردوں کی بالادستی پر مبنی معاشروں میں عورت کے حقوق صرف جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مصداق غصب کر لیے جاتے ہیں۔

صوبہ سندھ میں کاروکاری ہو یا قرآن سے شادی، پنجاب میں وڈیرہ شاہی کے ہاتھوں بد ترین ظلم و تشدد کا شکار ہاری یا کسان کی بیوی یا بیٹی ہو یا پھر بلوچستان میں کسی سیاستدان کی ستائی ہوئی غریب مزدور کی ماں، ہر رنگ اور ہر روپ میں عورت کے حقوق بری طرح پامال نظر آتے ہیں۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے لوگوں کو تو مسلمان ہونے کے ناطے رسولِ عربی ﷺ کے اسوۂ حسنہ کی پیروی کرنی چاہئے تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ الجنت تحت اقدام الامھات یعنی جنت ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے۔

بیٹی کو دورِ جہالت میں کافر زندہ دفن کردیا کرتے تھے اور موجودہ دور میں پاکستان کا جاہل اور ناخواندہ مرد شہری بیٹی کی پیدائش کی خبر سن کر اپنی بیوی کو طلاق دے دیتا ہے یا پھر ساس اپنی بہو سے اولادِ نرینہ کا تقاضا کرتی ہوئی پائی جاتی ہے۔

کیا بیٹا یا بیٹی پیدا کرنا عورت کے اپنے اختیار میں ہوتا ہے؟ اسلام نے تو ہمیں یہ سکھایا ہے کہ بیٹیاں اور بیٹے پیدا کرنا یا بانجھ رکھنا سراسر اللہ تعالیٰ کا اختیار ہے اور کسی انسان کی یہ مجال نہیں کہ اس میں ذرہ بھر بھی تصرف کرسکے۔ انسانی حقوق کا عالمی دن بھی آج ہمیں کچھ ایسا ہی سبق دے رہا ہے۔ 

مردوں کے حقوق اور خواتین کا رویہ 

سخت محنت مزدوری کرکے جان کھپانے والا گھر کا سربراہ جب تھکا ہارا اپنے گھر لوٹتا ہے تو اسے امید ہوتی ہے کہ بیوی یا ماں اس کا حال چال پوچھے گی اور سارے دن کی کارگزاری اسے سنا کر تھکان دور ہوجائے گی، لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوتا۔

یہاں ساس بہو کے سیریل دیکھنے والی خواتین کو شوہر کی ماں اور بیٹے کی بیوی کے خلاف سارا دن سازشیں، غیبت اور ہرزہ سرائی کے علاوہ کوئی کام نہیں ہوتا اور جب کوئی شخص کام سے فارغ ہو کر گھر پہنچتا ہے تو اس کے کان بھرے جاتے ہیں اور مخالفین پر بے بنیاد الزامات عائد کرکے ایک دوسرے پر تشدد کروایا جاتا ہے۔

مرد کسی خاتون پر ظلم کیا کرے، یہاں تو خاتون ہی خاتون کی دشمن بنی ہوئی ہے۔ غور کیا جائے تو مردو زن سمیت ہر انسان کو بنیادی انسانی حقوق کا چارٹر غور سے پڑھ کر اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ 

والدین کے حقوق اور ہماری ذمہ داریاں

ماں باپ ساری زندگی کی جمع پونجی خرچ کرکے اپنے بچوں کو پالتے پوستے ہیں۔ ان کا حق ہوتا ہے کہ اولاد بھی ان پر جان نچھاور کرے اور زندگی بھر ان کی عزت و احترام کے ساتھ ساتھ بھرپور خدمت کرے۔

تاہم اولاد والدین کے حقوق پورے نہیں کرتی۔ والدین بھی بچوں کو بد دُعائیں دے کر اپنے آپ کو ہر قسم کے فرض سے سبکدوش سمجھتے ہیں تاہم یہ کوئی قابلِ قبول رویہ نہیں ہے۔ 

ہمیں کیا کرنا چاہئے؟

انسان اشرف المخلوقات ہے اور جس انسان کو جو حیثیت عطا کی گئی ہے، اسے چاہئے کہ اسے سمجھے۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔

یعنی جو شخص جتنے بڑے عہدے پر فائز ہے اس کی ذمہ داریاں بھی اتنی ہی بڑی اور اہم ہیں۔ اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے نبھانا سیکھئے۔ ایک ہی شخص گھر میں باپ، بیٹا اور بھائی ہوسکتا ہے۔ کسی ادارے میں کوئی افسر کسی دوسرے افسر کا ساتھی، ماتحت یا پھر سینئر ہوسکتا ہے۔

تمام انسانوں کو اپنے اپنے فرائض سمجھ کر ان کی ادائیگی پر توجہ دینا ہوگی۔ انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقعے پر خود سے وابستہ تمام انسانوں کے حقوق کو سمجھئے اور اپنے تمام تر فرائض پورے کرنے کی کوشش کیجئے۔ یہی انسانی حقوق کے عالمی دن کا سب سے بڑا پیغام ہے۔ 

Related Posts