وزیر اعظم عمران خان آج ایک ویب پورٹل کا افتتاح کریں گے جسے معلومات برائے پاکستان یا ڈیٹا فار پاکستان پورٹل کا نام دیا گیا ہے۔
اس ویب پورٹل کی اہمیت و افادیت پر کوئی دو رائے نہیں لیکن ہمارا سوال یہ ہے کہ عوام ضروریاتِ زندگی کی سستے نرخوں پر فراہمی کے لیے ترس رہے ہیں۔ کیا ہمیں مہنگائی میں کمی کی جگہ ایسے منصوبوں کی کوئی ضرورت ہے؟
ڈیٹا فار پاکستان پورٹل کی اہمیت
وزیر اعظم عمران خان کا ڈیٹا فار پاکستان پورٹل حکومتی معلومات تک عوام کو رسائی دینے کا اہم منصوبہ ہے۔ اس کے تحت وفاقی و صوبائی حکومتوں کے ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے عوام جب چاہیں پورٹل سے معلومات حاصل کرسکیں گے۔
ویب پورٹل سے مراد ایک آن لائن ویب سائٹ ہے جسے کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کنکشن رکھنے والا ہر پاکستانی شہری باآسانی ملاحظہ کرسکے گا اور ان منصوبوں کے حوالے سے اپنی ایک رائے قائم کرسکے گا۔
یہاں ہمارا سوال یہ ہے کہ ملک کی 50 فیصد سے زائد آبادی اَن پڑھ ہے جو اپنا نام تک نہیں لکھ سکتے۔ کیا ایسے لوگ کمپیوٹر چلا کر کبھی یہ جان سکیں گے کہ حکومت کیا کر رہی ہے؟ یا انہیں کبھی اس بات سے کوئی دلچسپی بھی ہوسکتی ہے؟
عوام کے سب سے بڑے مسائل روزگار اور تعلیم ہیں۔ مہنگائی کے باعث عوام کو معاشی مسائل کی چکی میں جھونک دیا گیا اور ملک کی 70 سال سے زائد تاریخ میں کبھی عوام اس جدوجہد سے باہر نہیں نکلے۔ مہنگائی کا تدارک ضروری ہے۔
مہنگائی کی صورتحال
تحریکِ انصاف کی حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ سن 2019ء کے دوران قرضوں پر قابو پانے کے بعد 2020ء کے دوران مہنگائی پر قابو پاتے ہوئے معاشی استحکام لایا جائے گا۔ عوام کو ریلیف ملے گا، لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوسکا۔
مہنگائی کی تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ اشیائے ضروریہ عوام کی پہنچ سے دور ہوتی جارہی ہیں۔ مزدور پیشہ افراد کاکوئی پرسانِ حال نہیں جبکہ تنخواہ دار طبقے سمیت متمول گھرانے بھی مہنگائی کا رونا روتے نظر آتے ہیں۔
معاشی استحکام سے مراد؟
معاشی استحکام سے مراد یہ ہے کہ اشیائے خوردونوش عوام کی دسترس میں ہوں۔ غریب لوگ متوسط طبقے میں آسانی سے شامل ہوسکیں جبکہ متوسط طبقہ آسانی سے گھر خریدنے کے قابل ہوسکے، تاہم پاکستان میں ایسی کوئی صورتحال نہیں۔
ملک کی تازہ ترین معاشی صورتحال کے حوالے سے مشہور ماہرِ اقتصادیات ڈاکٹر قیصر بنگالی نے کہا کہ ملک پر مزید ٹیکس عائد نہیں کیے جاسکتے کیونکہ ملکی معیشت بے حد کمزور ہے۔معیشت درست سمت میں نہیں چل رہی۔
تیل کی قیمتوں میں کمی بے فائدہ
افسوس کی بات یہ ہے کہ بین الاقوامی سطح پر تیل کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی کے باوجود پاکستان میں تیل کی قیمتوں میں قابلِ ذکر کمی نہ لائی جاسکی۔
ماہرین کے مطابق حکومت کو اِس وقت فی لٹر پٹرول 45 روپے پڑ رہا ہے جس میں آئندہ مزید کمی کا امکان ہے، تاہم اِس بات کا فائدہ عوام کو نہیں پہنچایا جارہا۔ عوام آج بھی مہنگا پٹرول خریدنے پر مجبور ہیں۔
ہماری رائے میں عوام پر ٹیکس لگانے کی کوئی حد ہونی چاہئے۔ حکومت پٹرول فی لٹر 60 سے 70 روپے بھی فروخت کرے تو اسے اربوں کا فائدہ ہوگا، لیکن پٹرول کی قیمت میں کمی نہ کرکے عوام کا خون نچوڑا جارہا ہے۔
آٹے اور چینی کا بحران اور مصنوعی مہنگائی
گزشتہ کچھ دنوں سے وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے خبروں میں آٹے اور چینی کا بحران پیدا کرنے والوں کو نہ چھوڑنے کے بیانات آ رہے ہیں تاہم محدود پیمانے پر ہونے والی کارروائیوں کا خاطرخواہ نتیجہ برآمد نہ ہوسکا۔
وزیر اعظم عمران خان کو تین روز قبل آٹے اور چینی کے بحران کے حوالے سے تحقیقاتی رپورٹ بھی بھیجی گئی جس میں بتایا گیا کہ آٹے اور چینی کا کوئی حقیقی بحران نہیں تھا بلکہ ذخیرہ اندوزی کے ذریعے مصنوعی مہنگائی لائی گئی۔
عام دنوں میں 50 روپے فی کلو فروخت کی جانے والی چینی کی قیمت ایک منظّم منصوبہ بندی کے ذریعے 70 سے 80 روپے فی کلو تک پہنچائی گئی جبکہ گندم جو 1550 روپے فی من فروخت ہوتی ہے، اسے 1950 روپے تک پہنچا دیا گیا۔
مافیا نے تو اپنی جیبیں بھر لیں، لیکن اس میں سب سے برا اُس غریب مزدور کے ساتھ ہوا جسے عام دنوں میں بھی ایک دن دو وقت کی روٹی اور دوسرے دن فاقہ ہی نصیب ہوتا ہے۔اس کا درست حال ہفتے میں 4 روز فاقے کا سامنا کرنے والوں سے پوچھنا چاہئے۔
معاشی مسائل کا حل
حکومت کو اقتصادیات پر آئی ایم ایف سے آئی ہوئی معاشی ٹیم میسر ہے جو ان کے ہر مسئلے کا حل قوم پر ٹیکس اور مہنگائی میں مزید اضافے کو قرار دیتی ہے۔
ابتدا میں وزیر اعظم عمران خان آئی ایم ایف سے قرض نہیں لینا چاہتے تھے لیکن معاشی ٹیم وہ لے کر رہی جس پر بھاری سود کے ساتھ ساتھ معاشی پابندیاں بھی عائد کردی گئیں۔
آج معاشی ٹیم کو مہنگائی کا تمام تر بوجھ عوام پر ڈالنے سے کوئی نہیں روک سکتا کیونکہ آئی ایم ایف کے دباؤ کے آگے حکومت کی مجبوریاں پہاڑ نظر آنے لگتی ہیں۔
اس حوالے سے ماہرِ معاشیات ڈاکٹر قیصر بنگالی کا بیان بھی قابلِ غور ہے۔ انہوں نے کہا کہ معاشی خودمختاری کو سیاسی خودمختاری سے الگ نہیں کیاجاسکتا۔ مہنگی چیزوں کی درآمدات پر پابندی لگانا ہوگی۔
ڈاکٹر قیصر بنگالی نے کہا کہ ہماری معیشت مصنوعی طریقے اپنا رہی ہے۔ حکومتی و سرکاری اعدادوشمار اصل حقائق کے برعکس ہیں جنہیں زیادہ عرصے تک برقرار نہیں رکھا جاسکتا۔مزید ٹیکس لگانا معاشی مسائل کا حل نہیں ہے۔ اس سے مزید کاروبار بند ہوجائیں گے۔
ماہرِ اقتصادیات نے تجویز دی کہ حکومت کو اپنے اخراجات میں کمی لانا ہوگی۔ آمدنی کے نئے ذرائع تلاش کرنا ہوں گے۔ صنعتوں کو قائم کرکے انہیں مستحکم بنانا ہوگا اور زراعت کے شعبے سے مزید پیداوار حاصل کرنا ہوگی۔