چڑیا گھر کی ثقافت

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ملک بھر کے چڑیا گھروں میں ابتر حالات میں رہنے والے جانوروں کی حالت زار نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے اوربہت سے نقادوں نے جانوروں پر ہونے والے ظلم سے نمٹنے کے لیے چڑیا گھر کی افسوسناک ثقافت کو ختم کرنے اور جانوروں کو پناہ گاہوں میں منتقل کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔

چندروز قبل کراچی کے چڑیا گھر میں بھوک سے مرنے والے جانوروں کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد لوگوں میں غم و غصے نے جنم لیا۔

ٹھیکیدار نے واجبات کی عدم ادائیگی پر کھانا دینے سے انکار کر دیا تھا جبکہ کے ایم سی حکام نے جانوروں سے بے حسی کا مظاہرہ کیااورکچھ ہی دنوں بعد ایک نایاب سفید شیر ہفتوں تک بیمار رہنے اور علاج نہ ہونے کی وجہ سے مر گیا۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکام نے صرف علامتی اقدامات کیے ہیں اور جانوروں کی بہبود کے لیے کوئی خاص پالیسی نہیں ہے،گزشتہ سال پاکستان اس وقت عالمی توجہ کا مرکز بناجب اسلام آباد میں ایک ایشیائی ہاتھی کاون کو کمبوڈیا میں جانوروں کی پناہ گاہ میں منتقل کیا گیا۔

اس جانور کو کئی سال تنہائی میں گزارنے کے بعد ایک مقبول مہم کے بعد چھوڑاگیا۔ بدقسمتی سے چڑیا گھر کے دوسرے جانور انتہائی ابتر حالت میں ہیں اورفوری توجہ کے مستحق ہیں۔

جانور جذباتی مخلوق ہیں جو درد اور تکلیف کو محسوس کرسکتے ہیں۔ جانوروں پر ظلم کی روک تھام کے قانون میں بھی اس کو تسلیم کیا گیا ہے جس کا تعلق جانوروں کو چوٹ پہنچانے سے ہے۔ تاہم یہ قانون برطانوی دور کی باقیات ہے اور اسے 1937 کے بعد سے اپ ڈیٹ نہیں کیا گیا ہے، جو جانوروں کی بہبود کی طرف توجہ کی کمی کو ظاہر کرتا ہے۔

ہمارے مذہب کی جانب سے جانوروں کے ساتھ منصفانہ سلوک کرنے پر زور دینے کے باوجود حکومت نے ابھی تک جانوروں کے جذبات سے متعلق عملی تجربہ اور سائنسی علم کو قانون سازی میں شامل کرنا ہے۔

چڑیا گھر کا تصور بھی سالوں میں یکسر بدل گیا ہے۔ چڑیا گھر اب جانوروں کو پنجروں میں رکھنے کی جگہ نہیں ہے بلکہ ایک ایسی جگہ ہے جو انہیں ان کا قدرتی مسکن مہیا کرتی ہے۔

بہت سے جنگلی جانوروں کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ جنگلی اور آزاد بھاگتے ہیں، وہ پنجروں میں نہیں رہتے کیونکہ قید میں وہ بیمار پڑجاتے ہیں۔ پاکستان میں آلودہ شہری علاقوں میں قائم چڑیا گھروں کے حوالے سے کوئی قومی پالیسی یا ضابطہ نہیں ہے۔ چڑیا گھروں کو صوبائی جنگلی حیات کے تحفظ کے آرڈیننس کے تحت بھی ریگولیٹ نہیں کیا جاتا ہے۔

یہ ضروری ہے کہ جانوروں کی فلاح و بہبود کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے قانون سازی کی جائے اور اس پر سختی سے عمل درآمد کیا جائے اورجنگلی جانوروں کو قید میں رکھنے سے روکنے کے لیے بھی قانون سازی کی جائے اور جن سہولیات میں جانوروں کو قید رکھا جاتا ہے ان کا باقاعدگی سے معائنہ کیا جانا چاہیے۔ اگر حکام ان کی حالت بہتر نہ کر سکیں تو چڑیا گھر کی ثقافت کو ختم کرنا ہی آخری حل ہوگا۔

Related Posts